ستمبر گیارہ کے بیس برس بعد: جرمن مسلمان انتہا پسندوں کا حال

German Police

German Police

جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمن پولیس کو خدشہ ہے کہ افغانستان ایک مرتبہ پھر مسلمان جہادیوں بشمول جرمن انتہاپسندوں کا گڑھ بن سکتا ہے۔ ستمبر گیارہ کے دہشت گردانہ واقعات کے بیس برس بعد افغانستان میں پھر طالبان کا جھنڈا لہرا رہا ہے۔

بیس برس قبل مسلمان دہشت گردوں نے مسافر بردار ہوائی جہازوں کو دہشت گردی کے لیے استعمال کر کے چند امریکی عمارتوں کا نشانہ بنایا۔ ان حملوں میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے جڑواں ٹاورز منہدم ہو گئے اور قریب تین ہزار افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔ بیس برس قبل جرمن سکیورٹی حکام کے لیے مسلمان جہادیوں کی سرگرمیاں بڑی حد تک غیر معروف تھیں۔

بیس برس قبل، آج کا جرمنی اور مسلم دہشت گردی
ایک سینیئر جرمن پولیس افسر سَون کورینباخ نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بیس برس قبل فیڈرل کریمینل پولیس آفس (BKA) میں ایک درجن پولیس اہلکار ساری صورت حال کے لیے مقرر تھے۔

سن 2019 میں سَون کورینباخ کو بی کے اے میں ایک انتہا پسندی اور دہشت گردی کے ایک نئے شعبے کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ اب اس نئے تفتیشی شعبے میں قریب پانچ سو تفتیش کار، سائنسدان، مترجم اور تجزیہ کار متعین ہیں جو مسلمان جہادیوں کی نگرانی کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔

یہ اہلکار انتہائی خطرناک انتہا پسندوں کی خاص طور نگرانی بھی کر رہے ہیں اور انہیں کسی بھی ممکنہ حملے سے روکنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں جرمنی میں ‘اسلامک اسٹیٹ‘ کے لیے چندہ جمع کرنے والے ایک مشتبہ شخص کو حراست میں لیا گیا ہے۔

اعلیٰ جرمن پولیس اہلکار سَون کورینباخ کو ستمبر گیارہ کے دہشت گردانہ واقعات کے بیس برسوں بعد افغانستان میں طالبان کے لہراتے جھنڈے پر پریشانی لاحق ہے۔ ان کا ڈی ڈبلیو سے مزید بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ فکرمند ہیں کہ کہیں طالبان مختلف قسم کی دہشت گرد تنظیموں کو اپنے علاقوں میں برداشت کرنا شروع نہ کر دیں اور پھر سے ان کے علاقوں میں جہادیوں کے تربیتی کیمپ بھی قائم نہ ہو جائیں۔

کورینباخ کے یہ بھی کہنا ہے کہ ایسے افراد پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں پہلے سے موجود ہیں اور اس کا خطرہ بڑھ گیا ہے کہ اور ممالک سے بھی انتہا پسند طالبان کے ملک کا رخ کر سکتے ہیں۔

سَون کورینباخ نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے ایک جرمن جہادی تنظیم ‘ڈوئچے طالبان مجاہدین‘ کا بھی حوالہ دیا جو اب تک بڑی حد تک خبروں سے غائب ہو چکی ہے لیکن ان کا ویڈیو پراپیگنڈا پھر سے شروع ہو گیا ہے کہ وہ طالبان کے زیر کنٹرول علاقوں میں جمع ہو رہے ہیں۔

مسلم جہادی معاملات کے ایک اور ماہر کرسٹین ایپرٹ کا کہنا ہے کہ مختلف جرمن انتہا پسند گروپوں نے افغانستان میں ہونے والی پیش رفت کے تناظر میں اپنے مقصد کا پراپیگنڈا شروع کر رکھا ہے۔ ایپرٹ کے مطابق کابل پر طالبان کے قبضے کو جرمنی میں موجود انتہاپسند مسلمانوں نے اپنے لیے ایک تحفہ قرار دیا ہے۔ شام میں ‘اسلامک اسٹیٹ‘ کے زوال کے بعد ان انتہا پسندوں نے ایک مرتبہ پھر ‘اسلام کی فتح‘ کی گفتگو شروع کر دی ہے۔

خطرناک شخص کی اصطلاح کسی حد تک مبہم محسوس ہوتی ہے لیکن جرمن پولیس کے نزدیک ‘خطرناک شخص‘ سے مراد وہ فرد ہے جو کسی بھی وقت دہشت گردانہ کارروائی یا فعل کا ارتکاب کر سکتا ہے۔

دستیاب اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں مسلم دہشت گردی کے حوالے سے پانچ سو چون افراد انتہائی خطرناک افراد میں شمار کیے گئے ہیں۔ ان میں نوے اس وقت پولیس کی تحویل میں ہیں اور ایک سو چھتیس یورپی ممالک کے باہر مقیم ہیں۔ ان میں سے بیشتر شمالی شام کے شہر ادلب میں ہیں جو اب بھی جہادیوں کا ایک مضبوط گڑھ ہے۔

دسمبر سن 2019 کے بعد سے جرمنی میں خطرناک افراد کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔ قریب دو برس قبل ان کی تعداد چھ سو اناسی تھی جو اب کم ہو کر پانچ سو چون ہو گئی ہے۔ ان کے علاوہ پانچ سو ستائیس دوسرے افراد بھی ہیں، جنہیں خطرناک افراد کے ساتھ نتھی کیا جاتا ہے اور ان کے حوالے سے پولیس کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ یہ لوگ خطرناک افراد کے حلقے میں اٹھتے بیٹھتے ہیں اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کی ڈھکے چھپے انداز میں حمایت کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔