جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمنی میں ویکسینیشن مہم پر سے ملکی باشندوں کا اعتبار اٹھتا جا رہا ہے لیکن فیملی ڈاکٹرز مدد کے لیے تیار ہیں اور وفاقی وزیر صحت نے کہا ہے کہ کورونا کے خلاف ویکسین کی مہم تیز تر ہو جائے گی۔
یورپ کی اقتصادی شہ رگ سمجھے جانے والے جرمنی کو کورونا کی وبا نے کئی اعتبار سے نقصان پہنچایا ہے۔ جرمنی عام طور پر سماجی سہولیات کی فراہمی، فلاحی امدادی کاموں اور مشینوں کی ایجاد کے علاوہ طبی شعبے میں ہونے والی نت نئی ریسرچ کے میدان میں بھی نہ صرف یورپ بلکہ دنیا بھر میں معتبر اور با صلاحیت ملک سمجھا جاتا ہے۔ گزشتہ برس سے لے کر رواں سال کی پہلی سہ ماہی تک دنیا کے دیگر خطوں اور ممالک کی طرح جرمنی کو بھی کورونا کی وبا کے پھیلاؤ نے بہت منفی انداز میں متاثر کیا۔ اب تک عام خیال یہ تھا کہ یہ ملک اپنے ہاں کورونا کی وبا سے اچھی طرح نمٹ لے گا اور شہریوں کو موذی عارضے کووڈ انیس سے بچانے کے لیے ضروری طبی سہولیات کی فراہمی میں تیز رفتار اور ٹھوس اقدامات کرے گا۔ لیکن بد قسمتی سے اب تک کی صورت حال اس کے برعکس نظر آتی ہے۔ کورونا کی وبا سے جڑے دیگر اقتصادی اور معاشرتی مسائل کو اگر ایک طرف رکھ بھی دیا جائے اور صرف جرمنی کی کورونا ویکسین پالیسی ہی کا جائزہ لیا جائے، تو مایوس کن نتائج سامنے آتے ہیں۔
ایک نئی سروے رپورٹ سے پتا چلا ہے کہ تقریباً دو تہائی جرمن باشندوں کو شبہ ہے کہ برلن حکومت کی طرف سے کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے حفاظتی ٹیکوں سے متعلق جو اہداف طے کیے گئے تھے وہ انہیں پورا نہیں کر پائے گی۔ پیر پانچ اپریل کو شائع ہونے والی اس سروے رپورٹ کے مطابق تقریباﹰ دو تہائی جرمن باشندوں نے اس بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا کہ حکومت کورونا ویکسینیشن مہم کے اپنے اہداف حاصل کر سکے گی۔ عوام میں مایوسی کافی بڑھ گئی ہے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے وعدہ کیا ہے کہ ستمبر تک ایسے تمام بالغ جرمن باشندوں کو، جو کورونا ویکسین لگوانا چاہتے ہیں، پہلا ٹیکہ لگ جائے گا۔
خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی طرف سے کرائے گئے اس سروے کے مطابق محض 23 فیصد رائے دہندگان نے اس خوش امیدی کا اظہار کیا کہ حکومت اپنے ویکسینیشن اہداف حاصل کر لے گی جبکہ 62 فیصد نے کہا کہ اس کے امکانات کم نظر آ رہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں فروری میں کیے گئے ایک سروے میں 26 فیصد رائے دہندگان کا خیال تھا کہ جرمنی اپنے کورونا ویکسینیشن کے اہداف حاصل کر سکتا ہے۔
اس سروے کے مطابق خود جرمنی میں حکمران جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین یا سی ڈی یو اور اس کی ہم خیال پارٹی کرسچن سوشل یونین یا سی ایس یو کے 53 فیصد ووٹروں بھی کا کہنا ہے کہ انہیں برلن حکومت کے ستمبر تک ویکسینیشن کے لیے طے کردہ اہداف حاصل کر لینے کے امکانات نظر نہیں آتے۔
جرمن چانسلر ماسک پہننے کی تاکید کرنے سے پہلے خود اپنا ماسک درست طریقے سے پہنتے ہوئے۔
جرمنی اس وقت کورونا وائرس کی وبا کی تیسری لہر سے دو چار ہے۔ تمام 16وفاقی ریاستیں اپنے اپنے ہاں کورونا کے نئے کیسز اور کووڈ انیس کے باعث اموات کی تعداد کے اعتبار سے لاک ڈاؤن ضوابط طے کر رہی ہیں۔ اس سلسلے میں وفاقی سطح پر کوئی ایسا قانون یا لائحہ عمل تیار نہیں کیا جا سکا، جس کا اطلاق تمام 16 ریاستوں پر یکساں ہو سکے۔ اس کی ایک وجہ جرمن صوبوں کی کافی زیادہ خود مختاری کی روایت بھی ہے۔ جرمن باشندے تاہم کورونا ویکسین کی مہم سے کافی زیاہ آس لگائے ہوئے تھے۔ خاص طور سے جب جرمن دوا ساز کمپنی بائیو این ٹیک نے فائزر کے تعاون سے سب سے پہلے کورونا ویکسین تیار کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ اس کے بعد سے عوام میں ایک اطمینان پایا جانے لگا تھا اور امید بندھنے لگی تھی کہ عوام کو تیزی سے یہ ویکسین لگا دی جائے گی۔
وفاقی جرمن وزیر صحت ژینس اشپاہن نے پیر کے روز کہا کہ وہ توقع کرتے ہیں کہ اپریل کے آخر تک جرمنی میں کل آبادی کے 20 فیصد حصے کو کورونا ویکسین کا پہلا انجیکشن لگا دیا جائے گا۔ وزیر صحت نے برلن میں ایک ویکسینیشن سینٹر کے دورے کے دوران اپنے بیان میں مزید کہا کہ پہلے یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ اپریل میں محض 10 فیصد تک باشندوں کو پہلی ویکسین لگائی جا سکے گی۔ تاہم ان کے بقول، ”ہم ویکسین کی متوقع تیز رفتار فراہمی کی روشنی میں یہ امید کر رہے ہیں کہ اپریل میں 20 فیصد تک باشندوں کو اس ویکسین کی پہلی ڈوز دے دی جائے گی۔‘‘
رواں ہفتے جرمنی کے جنرل پریکٹیشنرز یا عام ڈاکٹر اپنے اپنے کلینکس پر بھی ویکسین لگانے کا سلسلہ شروع کر رہے ہیں۔ ان کی اس مہم کو تیز تر کرنے کے لیے جلد ہی دیگر میڈیکل اسپیشلسٹ، نجی فزیشنز اور کمپنی ڈاکٹرز بھی ان کی مدد کریں گے۔ وفاقی وزیر صحت کے مطابق ویکسینیشن کورونا وائرس کی وبا کی تیسری لہر کو روک نہیں سکتی اور اس کے لیے سماجی رابطوں پر پابندی ضروری ہے۔
گزشتہ اختتام ہفتہ پر جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے ملک بھر یعنی تمام 16 وفاقی ریاستوں میں یکساں نوعیت کی پابندیوں کی تجویز پیش کی تھی۔ مگر جرمن وفاقی نظام میں یہ بہت مشکل ہے کیونکہ ہر صوبے کو اپنے ہاں کی صورتحال کے حساب سے پابندیوں کے فیصلے کا حق حاصل ہے۔ ہر ریاست کے باشندوں کے لیے یہ جاننا مشکل ہو گا کہ انہیں کن چیزوں کی اجازت ہے اور کن پر پابندیوں میں مزید سختی کی گئی ہے۔ لہٰذا اس وزارتی تجویز پر ملا جلا رد عمل سامنے آیا تھا۔
جرمن شہروں اور قصبوں کے انتظامی اور بلدیاتی اداروں کی ملکی تنظیم کے سربراہ گیرڈ لانڈزبرگ نے اس بارے میں کہا کہ کسی وفاقی قانون کے نفاذ میں بہت زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔ فُنکے میڈیا گروپ کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ”موجودہ وفاقی نظام نے اس وبا کے دور میں اپنی افادیت ثابت کر دی ہے۔ مختلف ریاستوں اور علاقوں میں مختلف ضوابط بجا ہیں، کیونکہ ہر علاقے میں کورونا کے نئے کیسز اور کووڈ انیس کے باعث اموات کی تعداد مختلف رہی ہے۔‘‘
جرمن ریاست بویریا کے وزیر اعلیٰ مارکوز زؤڈر اور جرمن چانسلر انگیلا میرکل بھی ایک پیج پر نہیں ہیں۔
اس کے برعکس جرمنی کی تجارتی شعبے کی حامی سمجھی جانے والی سیاسی جماعت فری ڈیموکریٹک پارٹی نے بھی ہر صوبے کے لیے یکساں نوعیت کے وفاقی قانون کی تجویز کا خیر مقدم کیا ہے۔ ایف ڈی پی کے پارلیمانی حزب کے نائب سربراہ اشٹیفان تھومائے نے جرمن قدامت پسندوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ قدامت پسند سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے ملک میں کورونا سے متعلق یکساں نوعیت کی قانون سازی کو ممکن بنانے میں بہت وقت لگا دیا۔ تاہم ان کا کہنا ہے، ”تاخیر سے ہونا، نا ہونے سے بہتر ہے۔‘‘