قطر (اصل میڈیا ڈیسک) جرمنی نے یوکرین پر روسی حملے کے بعد سے گیس کی ملکی ضروریات کے لیے روس پر انحصار ختم کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔ اس سلسلے میں جرمنی کے وزیر اقتصادیات سب سے زیادہ ایل این جی برآمد کرنے والے ملک قطر پہنچ گئے ہیں۔
گیس کے متبادل ذرائع کی تلاش میں جرمنی کے وزیر اقتصادیات روبرٹ ہابیک ہفتے کے روز دوحہ پہنچ گئے۔
قطر دنیا میں سب سے زیادہ مائع قدرتی گیس (ایل این جی) برآمد کرتا ہے۔ قطر جانے سے پہلے جرمن وزیر رواں ہفتے ناروے بھی گئے تھے۔ ناروے کا شمار بھی گیس برآمد کرنے والے اہم ممالک میں ہوتا ہے۔
اس وقت جرمنی میں گیس کی زیادہ تر ضروریات روسی گیس سے پوری ہوتی ہیں، تاہم یوکرین پر حملے کے بعد جرمنی اور روس کے تعلقات بھی شدید متاثر ہوئے ہیں۔ اسی لیے اب جرمنی نے بھی روسی گیس پر انحصار ختم کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ روس سے گیس سے فراہمی کے اہم ترین پائپ لائن منصوبہ ’نارڈ اسٹریم ٹو‘ بھی ختم کیا جا چکا ہے۔
دورہ قطر کے دوران جرمن وزیر قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی اور دیگر حکومتی وزرا سے ملاقات کریں گے۔
اعلیٰ سطحی وفد میں وزیر اقتصادیات ہابیک کے ہمراہ دیگر اہم اہلکار بھی موجود ہیں۔ قطر میں ملاقاتوں کے دوران سب اہم ایجنڈا ایل این جی کی فراہمی یقینی بنانا ہی ہے۔
جرمنی اب تک پائپ لائن کے ذریعے گیس حاصل کرتا رہا ہے، اسی لیے ایل این جی کے لیے زیادہ ٹرمینلز نہیں بنائے گئے۔ تاہم اب ایل این جی پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے۔
جرمن چانسلر اولاف شولز نے دو نئے ایل این جی ٹرمینلز تعمیر کرنے کا اعلان تو کیا ہے لیکن یہ بھی سن 2026 سے پہلے بمشکل ہی مکمل ہو سکیں گے۔
قطر کے بعد جرمن وزیر متحدہ عرب امارات کا دورہ کریں گے۔ امارات گرین ہائیڈروجن برآمد کرنے والے ملک کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔
جرمنی کو امید ہے کہ متحدہ عرب امارات سے توانائی کے ماحول دوست ذرائع طویل مدتی حل ثابت ہو سکتے ہیں۔
قطر روانہ ہونے سے قبل جرمن وزیر نے مقامی میڈیا سے بتایا کہ جرمن حکومت اگلے موسم سرما کے لیے گیس کی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جسے ابھی تک یقینی نہیں بنایا جا سکا۔
جرمن ریڈیو ’ڈوئچ لانڈ رُنڈفنک‘ سے گفتگو کرتے ہوئے ہابیک نے کہا، ’’اگر ہم آئندہ موسم سرما تک مزید گیس حاصل نہیں کرتے، اور روس سے گیس کی فراہمی محدود یا ختم کر دی جاتی ہے، تو ہمارے پاس اتنی گیس نہیں ہو گی کہ گھروں کو گرم رکھا جا سکے اور صنعتیں بھی چلتی رکھی جا سکیں۔‘‘
جرمن وفاقی وزیر نے خبردار کیا کہ اگر کیمیکل انڈسٹری اور سٹیل ملز نے پیداوار روک دی تو تمام سپلائی چین ٹوٹ سکتی ہے۔
جرمن توانائی کی صنعت کی تنظیم بی ڈی ای ڈبلیو کا تاہم کہنا ہے کہ روسی سے درآمد کی جانے والی گیس کے نصف کا متبادل تلاش کرنا آسان کام ہے۔
جمعے کے روز تنظیم نے بتایا کہ جنوری سے مارچ کے دوران جرمنی میں روسی گیس 56 فیصد سے کم ہو کر 40 فیصد ہو چکی ہے۔ یہ اعداد و شمار ابھی شائع نہیں کیے گئے۔