جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) چند روز قبل جرمنی فوجیوں کا آخری دستہ افغانستان سے واپس اپنے ملک پہنچا تھا لیکن روایات کے برعکس ائیربیس پر کوئی بھی حکومتی اہلکار ان کے استقبال کے لیے موجود نہیں تھا یہاں تک کہ وزیر دفاع بھی موجود نہیں تھیں۔
تیس جون کو 264 فوجیوں کا آخری دستہ افغانستان سے واپس جرمنی پہنچا تھا لیکن حیران کن طور پر اس دستے کو واپس اپنے ملک میں خوش آمدید کہنے کے لیے کوئی ایک بھی حکومتی اہلکار وہاں موجود نہیں تھا۔ اس حوالے سے حکومت، وزارت دفاع اور افغان مشن کے سربراہ پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ تاہم جرمن مسلح افواج کے افغان مشن کے آخری کمانڈر بریگیڈیئر جنرل آنسگار مائر نے خاموشی سے جرمنی فوجیوں کی واپسی کا دفاع کیا ہے۔ انہوں نے اس فیصلے کا بھی دفاع کیا ہے کہ ایئربیس پر آخری دستے کو خوش آمدید کہنے کے لیے کوئی بھی سیاستدان موجود نہیں تھا اور یہ کہ اس حوالے سے کسی بھی بڑی تقریب کا انعقاد نہیں کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ جرمن فوجیوں کی خاموش واپسی سکیورٹی وجوہات کی بنا پر کی گئی ہے۔ جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ”یہ بات غیرمنصانہ ہوتی کہ ایئر بیس پر صرف تھوڑی سی تعداد میں پہنچنے والے فوجیوں کے اعزاز میں کسی بڑی تقریب کا انقعاد کیا جاتا۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ وہ ان تمام فوجیوں کے اعزاز میں ایک بڑی تقریب کا انعقاد کرنا چاہتے ہیں، جو گزشتہ 20 برسوں کے دوران افغانستان میں کسی بھی طرح تعینات رہے ہیں۔
جرمنی میں ایسی آوازیں بلند ہو رہی ہیں کہ افغان مشن کے اختتام کے حوالے سے ایک شاندار اور پر وقار تقریب کا اہتمام کیا جائے۔ جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق ان مطالبات کے بعد جرمن وزارت دفاع 31 اگست کو ایک فوجی تقریب کے انعقاد کی تیاری کر رہی ہے، جس میں افغانستان جنگ میں خدمات سرانجام دینے والے فوجیوں کو اعلٰی ترین سرکاری اعزازات دیے جائیں گے۔
سیاسی جماعتوں سی ڈی یو اور ایف ڈی پی کی طرف سے کسی بڑی تقریب کے انعقاد کے مطالبے کے بعد دفاعی پالیسی کے پارلیمانی گروپ کی ترجمان زیمتے میولر کا بھی اس حوالے سے کہنا تھا، ”میرے خیال میں پارلیمان کی عمارت کے سامنے ایسا کرنا اچھا خیال ہے کیونکہ ہمارے پاس ایک پارلیمانی فوج ہے۔‘‘
افغان مشن میں جرمنی کے کم از کم 59 اہلکار ہلاک ہوئے ہیں جبکہ زخمی ہونے والوں کی تعداد بھی درجنوں میں ہے۔