جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمنی کے پبلک ہیلتھ ادارے روبرٹ کوخ انسٹیٹیوٹ کے مطابق کووڈ ویکسین کے مہلک وائرس کے خلاف مفید نتائج سامنے آئے ہیں۔ جرمن حکام ملک میں ویکسینیشن میں مزید تیزی لانے کی کوشش کر رہےہیں۔
وبائی امراض کی روک تھام کے قومی ادارہ رابرٹ کوخ انسٹیٹیوٹ (آر کے آئی) کی ایک تازہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جرمنی میں کورونا وائرس کے خلاف بڑے پیمانے پر ویکسینیشن مہم نے ہزاروں اموات واقع ہونے سے روک دی ہیں۔
چھ اگست کو شائع ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق کورونا وبا کی ‘تیسری لہر‘ کے دوران کووڈ ویکسین کے استعمال کی وجہ سے 38000 انسانی جانوں کو بچایا جاچکا ہے۔ لوگوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے کی وجہ سے سات لاکھ چھ ہزار سے زائد نئے کیسز کو بھی روکا گیا۔ یہ نتائج جرمنی میں گزشتہ ساڑھے چھ ماہ سے بڑے پیمانے پر جاری ویکسینیشن مہم کے اعداد و شمار سے اخذ کیے گئے ہیں۔
بھوپال سمیت کئی متاثرہ شہروں میں بہت سے شمشان گھاٹوں نے زیادہ لاشوں کو جلائے جانے کے لیے اپنی جگہ بڑھا دی ہے لیکن پھر بھی ہلاک شدگان کے لواحقین کو اپنے عزیزوں کی آخری رسومات کے لیے گھنٹوں انتظار کرنا پڑ رہا ہے۔ بھوپال کے ایک شمشان گھاٹ کے انتظامی اہلکار ممتیش شرما کا کہنا تھا، ’’کورونا وائرس دھڑا دھڑ ہمارے لوگوں کو نگلتا جا رہا ہے۔‘‘
ویکسین مہم کے سبب 76000 ہزار افراد کو ہسپتالوں میں داخل ہونے کی ضرورت نہیں پڑی اور 20000 ہزار افراد کو انتہائی نگہداشت کے یونٹ (آئی سی یو) میں نہیں منتقل کرنا پڑا۔
آر کے آئی کے مطابق کووڈ ویکسین میں وائرس کے خلاف بہترین افادیت موجود ہے۔ صحت عامہ کے ادارے نے کہا کہ اعداد وشمار سے پتہ چلتا ہے کہ ویکسینیشن ‘وبا سے باہر نکلنے کی راہ ہموار کرے گی۔‘
جرمنی میں 45 ملین افراد کی ویکسینیشن مکمل جرمن حکام اس وقت ملک میں ویکسینیشن مہم میں تیزی لانے کے موثر طریقوں پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔ اس حکمت عملی پر خاص طور پر زیادہ متعدی ڈیلٹا قسم کے پھیلاؤ کی وجہ سے غور کیا جا رہا ہے۔
کورونا کی عالمی وبا کے دور ميں ملازمت کے مواقع ميں کمی، کام کاج کے محدود اوقات، اجرتوں ميں کٹوتی اور ديگر کئی وجوہات کی بنا پر دنيا بھر ميں اضافی دس کروڑ افراد غربت کی لکير سے نيچے چلے گئے ہيں۔ يہ انکشاف اقوام متحدہ نے اپنی تازہ رپورٹ ميں کيا ہے، جو بدھ دو جون کو جاری کی گئی۔
وزیر صحت ژینس اشپاہن نے ہفتے کے روز کہا کہ جرمنی میں 45 ملین سے زائد افراد کو مکمل طور پر ویکسین لگا دی گئی ہے۔ یہ تعداد جرمنی کی کل آبادی کا 54.5 فیصد حصہ بنتی ہے۔ اس کے علاوہ جرمنی میں کل 51.8 ملین افراد یا 62.3 فیصد آبادی کو کم از کم حفاظتی ٹیکوں کی ایک خوراک مل چکی ہے۔
ژینس اشپاہن نے حال ہی میں 12 سے 17 سال کی عمر کے بچوں کو ویکسین لگانے کا کہا تھا، تاہم اس تجویز کی ابھی تک قومی ویکسین ریگولیٹر STIKO نے تائید نہیں کی۔
وزیر صحت نے ایک ٹویٹ میں لکھا، ”ویکسین لگوانا ایک نجی فیصلہ ہے لیکن اس فیصلے کا اثر پوری کمیونٹی پر ہوتا ہے۔ ہر شخص کو انفرادی سطح پر فیصلہ کرنا ہے کہ ہم آئندہ موسم خزاں اور سردیوں کو کتنے اچھے طریقے سے گزارنا چاہتے ہیں۔‘‘
یورپ کے دیگر ممالک نے ایسی پالیسیاں نافذ کر رکھی ہیں، جس کے تحت شہریوں کو ریستوران یا دیگر عوامی مقامات میں داخلے سے قبل یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ وہ ویکسین لگوا چکے ہیں یا وائرس سے صحت یاب ہوچکے ہیں۔ ان یورپی ممالک میں فرانس اور اٹلی شامل ہیں۔ لیکن ان کے اس فیصلے کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج بھی ہو رہے ہیں کیونکہ کچھ شہریوں کا خیال ہے کہ یہ پالیسی ان کی آزادیوں کی خلاف ورزی ہے۔
جرمنی میں بھی ‘کُویئر ڈینکر‘ نامی تحریک کے تحت سازشی نظریات کے حامی افراد نے ان پابندیوں کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ دوسری جانب بعض جرمن سیاستدانوں نے بھی کووڈ ویکسین کو لازمی قرار دینے کی مخالفت کی ہے۔ فری ڈیموکریٹک پارٹی سے منسلک جرمن پارلیمان کے رکن اینڈریو اُلمان کا کہنا ہے کہ وہ ویکسین کے حامی ہیں لیکن ان کے خیال میں اس کو لازمی قرار دینے کا فیصلہ مؤثر ثابت نہیں ہوگا۔