جرمنی نے افغانستان میں دوبارہ فوج بھیجنے کی تجویز مسترد کر دی

Afghanistan

Afghanistan

جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) افغانستان میں طالبان کی پیشقدمی جاری ہے اور جنگجوؤں نے ایک اور صوبے پر قبضہ کر لیا ہے۔ اب تک وہ چھ صوبائی دارالحکومتوں پر کنٹرول حاصل کر چکے ہیں۔ امریکا نے بھی کہا ہے کہ اب ملک کے دفاع کی ذمہ داری افغان فورسز پر ہے۔

طالبان نے نو اگست پیر کے روز افغانستان کے ایک اور شمالی صوبے سمنگان کے دارالحکومت ایبک پر قبضہ کرنے کا اعلان کر دیا اور اس طرح گزشتہ پانچ روز کے اندر طالبان چھ صوبائی دارالحکومتوں پر اپنا کنٹرول حاصل کر چکے ہیں۔

ایبک شہر سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق افغان حکومتی فورسز نے شہر میں اضافی فورسز اور فضائیہ کی مدد طلب کی تھی تاہم کابل حکومت بروقت مدد پہنچانے میں ناکام رہی اور افغان فوج شہر چھوڑ کر فرار ہو گئی۔

ایبک پر قبضے سے قبل اتوار کو طالبان نے دفاعی نکتہ نظر سے اہم شہر قندوز، سر پل اور طالقان پر قبضہ کر لیا تھا جبکہ اس سے قبل شبرغان اور نمروز کے دارالحکومت زرنج کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔ اس طرح اب تک وہ چھ صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کر چکے ہیں جبکہ ہرات کے نواح میں بھی طالبان اور حکومتی فورسز کے مابین شدید لڑائی کی اطلاعات ہیں۔ ادھر لشکرگاہ اور قندھار پر بھی قبضے کے لیے شدید لڑائی جاری ہے۔

قندوز ہی وہ شہر ہے جہاں گزشتہ دس برسوں سے جرمن فوج تعینات تھی اور گزشتہ جون میں اسی شہر سے بالآخر جرمنی واپس آئی تھی۔

جرمن وزیر دفاع آنیگریٹ کرامپ کارین باؤرنے پیر کے روز طالبان کی پیشقدمی کی خبروں پر رد عمل کے طور پر کئی ٹویٹ پوسٹ کیں اور کہا کہ قندوز سمیت، ”پورے افغانستان سے ملنے والی اطلاعات بہت ہی تکلیف دہ اور تلخ ہیں۔ ہم نے وہاں اپنے اتحادیوں کے ساتھ جنگ لڑی اور جرمن فوجی بھی اس جنگ میں ہلاک ہوئے۔”

افغانستان میں تقریباً بیس برس تک جرمن افواج کی تعیناتی کے دوران بہت سے مثبت پہلوؤں کا ذکر کرتے ہوئے کہا، ” ہم بظاہر جو کچھ بھی کرنے میں ناکام رہے وہ افغانستان میں طویل مدتی مثبت تبدیلی تھی۔ مستقبل میں اب جب کبھی بھی بیرون ملک فوج تعینات کرنی ہو تو ہمیں اس سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔”

ایک ایسے وقت جب طالبان بہت تیزی سے لڑائی میں آگے بڑھ رہے ہیں، جرمنی میں ایک حلقے کا مطالبہ ہے کہ افغانستان میں دوبارہ فوج تعینات کرنے کی ضرورت ہے۔ جرمن وزیر دفاع نے اس کا جواب دیتے ہوئے اس تجویز کو مسترد کر دیا۔

ان کا کہنا تھا، ”کیا معاشرہ اور پارلیمان جرمن فوج کو وہاں بھیجنے کے لیے اور فوجیوں کی ایک بڑی تعداد کو وہاں کم از کم ایک نسل تک رکھنے کے لیے تیار ہے۔ اگر نہیں، تو کم سے کم ہمارے شراکت داروں کے ساتھ وہاں سے مشترکہ انخلا کا فیصلہ صحیح ہے۔”

خارجی امور سے متعلق جرمن پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین نے اسی اختتام ہفتہ اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ طالبان کو روکنا بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر اس کے لیے یورپی اور جرمن فورسز کی ضرورت پڑے تو اسے بھی مہیا کرنا چاہیے۔ باور کیا جاتا ہے کہ جرمن وزیر دفاع کے یہ بیانات اسی کا براہ راست جواب ہیں۔

اس دوران امریکا نے ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ افغانستان کے دفاع کی ذمہ داری افغان فورسز پر عائد ہوتی ہے۔ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے طالبان کی پیشقدمی پر اپنے رد عمل میں کہا کہ موجودہ رجحان پر انہیں گہری تشویش ہے تاہم افغان سکیورٹی فورسز باغی گروپوں سے لڑنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔

ان کا کہنا تھا، ”یہ ان کی اپنے عسکری فورسز ہیں، یہ انہیں کے صوبائی دارالحکومت ہیں اور انہیں اس کا دفاع کرنا ہے۔ قیادت کو اس وقت اپنے عزم کا مظاہرہ کرنا ہے کہ وہ واقعی ایسا کرنا چاہتے ہیں۔”

تاہم جب ان سے یہ سوال پوچھا گیا کہ اگر افغان فورسز مقابلہ کرنے میں ناکام رہے تو امریکی فوج کیا کر سکتی ہے؟ اس کے جواب میں جان کربی نے کہا، ” کچھ خاص نہیں۔”

ادھر امریکی وزارت خارجہ نے پیر کے روز ایک بیان میں کہا کہ افغانستان کے لیے امریکی سفیر زالمے خلیل زاد دوحہ روانہ ہو گئے ہیں، جہاں ”وہ طالبان قیادت پر حملے بند کرنے اور سیاسی طریقے سے مسئلے کا حل کرنے پر زور دیں گے۔”

افغانستان کے مختلف علاقوں میں اس وقت حکومتی فورسز اور طالبان کے درمیان شدید لڑائی جاری ہے جس میں گزشتہ ایک ماہ کے دوران ایک ہزار سے بھی زیادہ افراد مارے جا چکے ہیں۔ تاہم اس سے سب سے زیادہ بچے اور خواتین متاثر ہو رہی ہیں۔

پیر کے روز اقوام متحدہ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ افغانستان میں گزشتہ تین دن کے دوران 27 بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔بچوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کا کہنا ہے کہ اسے بچوں کے خلاف اس تیزی سے بڑھتے تشدد پر گہری تشویش لاحق ہے۔

یونیسیف کے مطابق گزشتہ تین روز کے دوران قندھار، خوست اور پکتیا جیسے تین صوبوں میں 27 بچے ہلاک ہوئے ہیں اور 163 بچے زخمی بھی ہوئے ہیں۔

یونیسیف کے مطابق بیشتر بچے راستوں پر نصب بم اور دو طرفہ فائرنگ کی زد میں آ کر ہلاک ہوئے ہیں۔ لڑائی کی وجہ سے بہت سے خاندان گھر بار چھوڑ کر میدان میں سونے پر مجبور ہیں اور اس وجہ سے بھی وہ متاثر ہو رہے ہیں۔ یونیسیف نے فریقین سے کہا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ کم سے کم بچے محفوظ رہے ہیں۔