شام (اصل میڈیا ڈیسک) جرمن وفاقی استغاثہ شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے شواہد جمع کر رہا ہے۔ ڈی ڈبلیو کو اس تفتیش کی دستاویزات تک خصوصی رسائی حاصل ہوئی ہے۔ عینی شاہدین کے بیانات پر مبنی یہ دستاویزات آڈیو اور ویڈیو مواد پر مشتمل ہیں۔
اکیس اگست سن 2013 کو سارین گیس کے حامل راکٹ شامی دارالحکومت دمشق کے مشرقی علاقے غوطہ پر داغے گئے تھے۔ قدرے ٹھنڈے موسم میں اعصاب شکن سارین گیس حکومت مخالف باغیوں کے رہائشی عمارتوں کے تہ خانوں میں بھی سرائیت کر گئی تھی۔
ایک عینی شاہدہ ایمان ایف کا کہنا تھا کہ زہریلی گیس کے حملے کے بعد یہ محسوس ہوا کہ قیامت آ گئی ہے اور لوگوں کی ہلاکت ایسے ہوئی جیسے چیونٹیوں پر کیڑے مار اسپرے کر دیا گیا ہو۔ خاتون ایمان ایف ایک تربیت یافتہ نرس اور تین بچوں کی والدہ ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کئی افراد کی موت سڑکوں پر ہو گئی، موٹر کاریں روک دی گئی تھیں اور ان میں بیٹھے ہوئے افراد نکل کر بھاگنا چاہتے تھے کیونکہ دم گھٹ رہا تھا اور وہ بچنا چاہتے تھے۔ ایمان نے اپنے بھائی سے کہا کہ وہ بچوں کو لے کر کسی محفوظ مقام کی جانب بھاگ جائے اور وہ خود قریبی اسپتال کی جانب بھاگ پڑی کیونکہ وہ وہاں کام کرتی تھیں اور ان کی وہاں ضرورت تھی۔ اا کا شوہر محمد ایف بھی تھوڑی دیر بعد وہاں پہنچا تا کہ لوگوں کی دی جانے والی طبی امداد میں مدد کی جا سکے۔
شام کا مسلح تنازعہ ہو یا کوئی اور، ہر جگہ گولہ باری یا فضائی حملوں سے بچنے کے لیے کسی حد تک چھپنا ممکن ہے لیکن گیس حملے میں پناہ کا کوئی امکان نہیں۔ محمد ایف نے سارین گیس حملے کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ بے شمار افراد جلدی جلدی ہسپتال پہنچنے کی کوشش میں تھے۔ غوطی کا ہسپتال بیسمینٹ میں تھا۔ محمد نے بھی ہسپتال پہنچ کر اپنی بیوی سے کہا کہ وہ باہر جا کر دیکھے کہ کیا ہو گیا ہے اور اسی وقت ایک راکٹ ہسپتال کے سامنے آ کر گرا۔ ایمان ایف جب باہر آئیں تو ان کا شوہر بھی زمین پر دوسرے لوگوں کی طرح گرا ہوا تھا اور ان کے مطابق وہ اس منظر کو بیان کرنے کی سکت نہیں رکھتیں۔ نرس ایمان کی مطابق بے بو گیس سارین نے تمام متاثرین کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا اور لوگوں کا نظام تنفس آہستہ آہستہ مفلوج ہوتا جا رہا تھا۔ زیادہ تر لوگوں کی ہلاکت دم گھٹنے یا آکسیجن کی کمی سے ہوئی۔ مقامی لوگ اس حملے کی ذمہ داری شامی حکومت پر عائد کرتے ہیں۔
نرس ایمان ایف غوطہ پر کیے گئے سارین گیس حملے کی گرفت میں آج بھی ہیں۔ اس حملے میں ان کا انیس برس کا بڑا بیٹا ہلاک ہو گیا تھا۔ اس لڑکے کی شناخت آن لائن مرنے والوں کی تصاویر میں ان کے ایک رشتہ دار نے کی تھی۔
اس حملے میں ہلاک شدگان کی تعداد ایک ہزار کے قریب تھی اور ان میں چار سو بچے شامل تھے۔ اس تعداد کی تصدیق آزاد ذرائع کرتے ہیں۔ ایک شامی صحافی ثائیر ایچ کے مطابق ان کے سامنے بے شمار بچوں نے اعصاب شکن گیس کی وجہ سے دم توڑا اور وہ کچھ نہیں کر سکے کیونکہ طبی امداد دینے سے نابلد تھے۔ ثائیر کے مطابق مرنے والوں کی نعشیں یہ بیان کر رہی تھیں کہ ان کی موت انتہائی تکلیف میں ہوئی۔
بین الاقوامی قانون کے مطابق شہری آبادی پر کیمیکل ہتھیاروں کا استعمال ایک جنگی جرم ہے۔ اس جرم کے ارتکاب کے بعد یورپ پہنچنے والے شامی مہاجرین ملکی صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف انصاف کے متلاشی ہیں اور وہ اس ضمن میں اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ اس مقصد کے لیے یورپی عدالتوں تک رسائی کے متمنی ہیں۔ صحافی ثائیر ایچ ‘وائلیشن ڈاکومینٹیشن سینٹر‘ سے وابستہ ہیں اور شام میں مسلح تنازعے کے دوران ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ریکارڈ مرتب کر رہے ہیں۔ اس مرکز کی بنیاد ان کے ساتھی رازان زیتونیہ نے رکھی ہے۔
انٹرنیشنل کریمینل کورٹ میں شامی حکومت پر جنگ جرائم کا مقدمہ شروع نہیں کیا جا سکا اور ان کی درخواست اس لیے مسترد کر دی گئی کیونکہ سلامتی کونسل میں اس مناسبت سے پیش کردہ قرارداد کو روس اور چین نے ویٹو کر دیا تھا۔
ادھر جرمنی میں تین غیر سرکاری تنظیموں نے فیڈرل پراسیکیوٹر کو اس مناسبت سے درخواست دے رکھی ہے۔ جرمن شہر کارلزروئے میں واقع وار کرائمز یونٹ نے تصدیق کی ہے کہ انہیں یہ درخواست موصول ہو چکی ہے۔ اس ادارے کے ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ تفتیشی عمل جاری ہے۔ شہادتوں کو جمع کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہے۔
شامی حکومت کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی تردید کرتی ہے۔