جرمنی میں سیاہ فام افراد کی زندگی کیسی نظر آتی ہے؟

Black People

Black People

جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمنی میں اس بارے میں بہت کم تحقیق کی گئی ہے کہ یہاں سیاہ فام لوگ نسل پرستی اور امتیازی سلوک کے کن تجربات سے گزرتے ہیں۔ افرو مردم شماری اس صورتحال ميں تبدیلی لانا چاہتی ہے۔

نسل پرستی کے رجحان پر تحقیق کرنے والے محقق دانیئل گیامیراہ جرمنی میں بسنے والے سیاہ فام نسل کے باشندوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کے سد باب کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں جرمن دارالحکومت برلن کے پرینس لاؤر برگ ضلع کے ارنم پلاٹس میں خریداری کے بعد ايک منظر دیکھا اور اسے یوں بیان کیا، ”ایک شخص مدہوش زمين پر پڑا تھا – ہوسکتا ہے کہ اس نے بہت زیادہ شراب پی ہو یا اس نے منشیات کا استعمال کیا ہو۔ دو پولیس افسروں نے اسے فٹ پاتھ سے ہٹانے کی کوشش کی۔ جب میں گزر رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ ایک تیسرا پولیس والا آیا، وہ ایک سیاہ فام شخص تھا۔ ميں نے اسے دو بار دیکھا اور پھر ہلکا سا مسکرایا۔ خوش قسمتی سے، وہ واپس مسکرایا ۔ یہ پہلا موقع تھا جب میں نے برلن میں کسی سیاہ فام پولیس اہلکار کو دیکھا۔‘‘

ایک جرمن افرو برازیلین فلم ساز، پولیانا باؤم گارٹن کا کہنا ہے، ”جرمنی میں، خاص طور پر کم اجرت والے شعبے میں سیاہ فام افراد کی نمائندگی نظر آتی ہے۔ یہ جرمنی ميں پائی جانے والی ادارہ جاتی نسل پرستی کی ایک مثال ہے۔‘‘ اپنے کام میں، وہ بنیادی طور پر نسل پرستی اور امتیازی سلوک کو مد نظر رکھتی ہیں۔ وہ کہتی ہيں، ”اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیاہ فام خواتین کو ملازمت کا کوئی ایسا موقع ہی نہیں ملتا جہاں وہ کسی قسم کے با وقار کام کا تجربہ کرسکیں۔‘‘

جرمنی میں نسلی امتیاز میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ جرائم کے اعدادوشمار کے مطابق ، 2017ء کے مقابلے میں 2018ء میں نسل پرستانہ حملوں میں لگ بھگ 20 فیصد اضافہ ہوا ۔ تاہم، اعداد و شمار کی کمی کے سبب امتیازی سلوک کے خلاف کام کرنے والی ایجنسی یہ اندازہ نہيں لگا سکتی ہے کہ نسل پرستانہ رجحان سے متاثرہ گروہ کون کون سے ہيں اور انہيں کس طرح متاثر کیا جاتا ہے کیونکہ اس ایجنسی کے پاس نسلی امتیاز کے بارے میں معلومات اکٹھا نہیں ہوتيں۔

نسل پرستی کے رجحان پر تحقیق کرنے والے محقق دانیئل گیامیراہ کے خیال میں، افریقی نسل کے لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا مقابلہ کرنے کے ليے اعداد و شمار کو اکٹھا کیا جانا اور اسے ہدف بنانا ضروری ہے، خاص طور پر افریقی نسل کے سیاہ فام افراد کے اعداد و شمار کی عدم موجودگی ان کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کے سد باب ميں رکاوٹ ہے۔

گیامیراہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں ، ”انہیں کالوں یا سیاہ فام افراد کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن ان پر کوئی تحقیق نہیں ہوئی ہے۔‘‘

گیامیراہ جرمنی ميں سیاہ فام افراد کے ساتھ امتیازی سلوک کو نو آبادیاتی تاریخ اور نیشنل سوشلزم کا ”نسل پرستانہ تسلسل‘‘ قرار دیتے ہیں۔ جرمنی نے 20 ویں صدی میں نوآبادی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والوں کی نسل کشی کی۔ نوآبادی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے کے بعد 1904ء سے 1908ء کے درمیان جنوبی مغربی افریقہ، جو اب نامیبیا کہلاتا ہے ، ميں ناما اور ہیریرو نسل کے ہزاروں انسانوں کو قتل کیا گیا تھا۔ اور اگرچہ متعدد جرمن سیاست دانوں نے نسل کشی کو پہچان لیا ہے، لیکن باضابطہ طور پر معافی نامہ ابھی باقی ہے۔ جرمنی کی متعدد گلیوں میں اب بھی ایسے لوگوں کے نام درج ہیں جنہيں بڑے پیمانے پر قاتل کہا جا سکتا ہے۔

گیامیراہ کا کہنا ہے، ’’ تاريخ پر نظر ثانی کرتے ہوئے توجہ نیشنل سوشلزم پر مرکوز ہوتی ہے۔ اس پہلو سے ديکھا جائے تو اجتماعی ذمہ داری اتنی بڑی ہے کہ معاشرے کے ليے جرمن تاریخ کے دیگر واقعات کو تسلیم کرنا مشکل ہے۔ عوامی گفتگو میں کالوں کے ساتھ جرمن استعمار اور نسل پرستانہ رویہ کو نظرانداز کیا گیا ہے۔‘‘

جرمنی میں نسل پرستی پر قومی سوشلزم کا ذکر کیے بغیر بحث کرنا ناممکن ہے۔ جرمن معاشرے پر نازی دور کے اثرات اب بھی محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ کچھ ماہرین قومی سوشلسٹ نسلی نظریات کے نتیجے کے طور پر عوامی گفتگو میں نسل پرستی کو مناسب طریقے سے حل کرنے میں ناکامی پر غور کرتے ہیں۔

دانیئل گیامیراہ اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہيں،”نیشنل سوشلزم کے حوالے سے مجموعی طور پر معاشرے کی ذمہ داری کو قبول کرنا ايک ناگوار عمل ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ جرمن استعمار کے نتائج اکثر نظرانداز کیے جاتے ہیں۔‘‘