جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) کورونا وائرس کی عالمی وبا شروع ہونے کے بعد جرمنی میں کسی ایک دن میں کووڈ انیس کے سب سے زیادہ کیس ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ اس پیش رفت سے حکومتی حلقوں میں تشویش کی ایک نئی لہر دوڑ گئی ہے۔
جرمنی میں متعدی امراض کی روک تھام اور ریسرچ کے ادارے رابرٹ کوخ انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے بدھ کو جاری کیے گئے تازہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں اسی ہزار سے زائد افراد میں کووڈ انیس کی تصدیق ہوئی ہے۔ اس ایک دن کے مختصر دورانیے میں تین سو چوارسی افراد اس بیماری کی وجہ سے ہلاک بھی ہو گئے۔
اس سے قبل جرمنی میں کسی ایک دن میں سب سے زیادہ نئی انفیکشنز کی تعداد چھہتر ہزار تھی، جو چوبیس نومبر کو نوٹ کی گئی تھی۔ خیال ہے کہ سال نو اور کرسمس کی چھٹیوں کے دوران لوگوں کے ملنے ملانے اور سماجی رابطوں میں دوری اختیار نہ کرنے کی وجہ سے کووڈ انیس کے کیسوں میں یہ تازہ ڈرامائی اضافہ ہوا ہے۔
دسمبر سن دو ہزار انیس میں چینی شہر ووہان سے شروع ہونے والی یہ عالمی وبا اگرچہ ماضی میں بھی جرمنی کو متاثر کر چکی ہے لیکن کسی ایک دن میں اتنے زیادہ کیس ماضی میں کبھی نوٹ نہیں کیے گئے تھے۔ اس وبا کے تیزی سے پھیلاؤ کی وجہ کووڈ انیس کی تبدیل شدہ اقسام کو قرار دیا جا رہا ہے۔
بالخصوص کورونا کی نئی تبدیل شدہ قسم اومیکرون نے یورپ بھر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے تاہم جرمنی جیسے یورپی ممالک جہاں ویکسین لگوانے کی شرح قدرے کم ہے، وہاں اس میں مبتلا ہونے کے امکانات انتہائی زیادہ بتائے جا رہے ہیں۔
اور کتنے امیر ہونگے؟ ایمیزون کے بانی جیف بیزوس (اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ) کا الگ ہی انداز ہے۔ ان کی ای- کامرس کمپنی نے وبا کے دوران بزنس کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ بیزوس کورونا وائرس کی وبا سے پہلے بھی دنیا کے امیر ترین شخص تھے اور اب وہ مزید امیر ہوگئے ہیں۔ فوربس میگزین کے مطابق ان کی دولت کا مجموعی تخمینہ 193 ارب ڈالر بنتا ہے۔
کیسوں کی تعداد زیادہ ہو سکتی ہے جرمنی میں ایک ہفتے کے دوران سامنے آنے والے کیسوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ کرسمس اور سال نو کی تعطیلات کے باعث لوگوں کی طرف سے ٹیسٹ کرانے کی شرح کم رہی، جس کی وجہ سے اندیشہ ہے کہ نئی انفیکشنز کی تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
جرمنی کی تقریبا اسی ملین کی کل آبادی میں پچھتر فیصد سے کم آبادی نے کووڈ انیس کی ایک ویکیسن لگوائی ہے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ اس عالمی وبا سے نمٹنے کی خاطر زیادہ سے زیادہ لوگ ویکسین لگوائیں تاہم حالیہ عرصے میں جرمنی میں بھی ویکسین کی مخالفت کرنے والوں میں اضافہ ہوا ہے۔
ماہرین کا انتباہ ادھر متعدی امراض کے ماہر لیف ایرک زانڈر نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ حکومت کی طرف سے نئی پابندیوں کے باعث اومیکرون کے پھیلاؤ کا عمل رک سکتا ہے۔ انہوں نے البتہ کہا کہ حکومت کو فوری اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ اومیکرون کو مزید پھیلنے سے روکا جائے۔
زانڈر نے کہا کہ ایسے شواہد ہیں کہ یہ نئی قسم تیزی سے پھیل رہی ہے اور ایسے افراد کو بھی متاثر کر رہی ہے، جو اس بیماری سے شفا یاب ہو چکے ہیں یا جنہوں نے ویکسین کرا رکھی ہے۔ تاہم ابتدائی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ یہ نئی قسم پرانی اقسام کی طرح مہلک و جان لیوا نہیں ہے۔
دریں اثنا جرمنی نے بائیون ٹیک فائزر کی تیار کردہ کووڈ ویکسین کی اضافی پانچ ملین خوراکیں حاصل کر لی ہیں، جو چوبیس جنوری سے عوام کے لیے دستیاب ہوں گی۔ توقع ہے کہ ویکسین کی اس نئی ڈیلیوری سے جرمنی میں ویکسین مہم میں تیزی پیدا ہو سکے گی۔