جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمن اراکینِ پارلیمنٹ نے ایس پی ڈی کے اہم سیاستدان اور وزیر خزانہ اولاف شولس سے ممکنہ مالیاتی فراڈ کے حوالے سے پوچھ گچھ کی ہے۔ اولاف شولس اس وقت پارلیمانی انتخابات میں چانسلر کا منصب سنبھالنے کے مضبوط امیدوار ہیں۔
سوشل ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے اہم سیاستدان اولاف شولس کو پیر بیس ستمبر کو ملکی پارلیمنٹ کی مالیاتی کمیٹی کے سامنے پیش ہونا پڑا۔ اس پارلیمانی انکوائری کا تعلق جرمن شہر کولون کے ایک ادارے فنانشل انٹیلیجنس یونٹ کے بارے میں جاری تفتیش سے ہے۔
اس ادارے کے دفتر پر نو ستمبر کو جرمن وزراتِ مالیات اور انصاف کے اہلکاروں اور دفترِ استغاثہ کے اراکین نے مشترکہ طور پر چھاپا مارا تھا۔ اس ادارے پر ممکنہ طور پر منی لانڈرنگ کے ارتکاب کا الزام عائد ہو سکتا ہے۔
اولاف شولس اس وقت جرمن پارلیمانی انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پانے والی پارلیمان کی امکانی طور پر سب سے بڑی پارٹی ایس پی ڈی کی جانب سے چانسلر کے منصب کے امیدوار ہیں۔ اس پارٹی کی مقبولیت کی شرح چھبیس فیصد سے زائد ہے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں کہ اولاف سے کس نوعیت کی انکوائری کی گئی ہے۔
اس پارلیمانی پوچھ گچھ کے بعد اولاف شولس نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے دور میں فنانس منسٹری نے ایسے اہم تادیبی اقدامات اٹھائے ہیں کہ کوئی بھی جرم کرنے والا کسی بھی طور پر بچ نہیں سکتا۔انتخابات میں مقابلہ سخت ہو گا، لاشیٹ
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق داخلی ذرائع نے بتایا ہے کہ کمیٹی کو جمع کرائے جانے والے بیان میں شولس نے یہ موقف بھی اپنایا کہ کوئی بھی وزیر کسی بھی مسئلے کو انگلی کے ایک اشارے سے حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
انگیلا میرکل کی موجودہ حکمران سیاسی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) اور اس کی حلیف کرسچین سوشل یونین (سی ایس یو) نے اولاف شولس کے پارلیمانی کمیٹی میں شریک ہونے سے قبل جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وزارتِ خزانہ کا قلمدان رکھنے والے وزیر اپنے دور میں منی لانڈرنگ کے حساس معاملے کے خلاف اپنی جد وجہد میں ناکام رہے ہیں۔
کرسچین سوشل یونین سے تعلق رکھنے والے ایک رکن پارلیمان ہانس مشیل باخ کا کہنا ہے کہ اس سارے معاملے میں کئی ایسی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں، جن کا جواب اولاف شولس کو بطور وزیر خزانہ دینا ہے۔
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اولاف شولس کو چھبیس ستمبر کے پارلیمانی انتخابات سے محض پانچ دن قبل اس انکوائری کے منفی اثرات کا سامنا ہو سکتا ہے اور ان کی عوامی مقبولیت کا گراف گر سکتا ہے۔
ان مبصرین کے مطابق جرمن عوام مالی بے ضابطگیوں کے معاملات کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں اور ایس پی ڈی کو اس مناسبت سے بھاری قیمت چکانا پڑ سکتی ہے۔
یہ بھی خیال کیا گیا ہے کہ اس کا فائدہ یقینی طور پر کرسچین ڈیموکریٹک یونین کو مل سکتا ہے۔ دوسری جانب موجودہ حکمران سیاسی جماعت سی ڈی یو کی مقبولیت کا گراف مسلسل نیچے کی جانب ہے۔
اتوار کی رات ہونے والے تیسرے الیکشن مباحثے میں بھی رائے عامہ کے جائزے میں شولس کو فاتح قرار دیا گیا تھا۔ سی ڈی یو کی عوامی مقبولیت اکیس فیصد کے لگ بھگ ہے جب کہ ایس پی ڈی کو پانچ پوائنٹس کی برتری حاصل ہے۔