برلن (جیوڈیسک)جرمن پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے حبس بے جا میں رکھے گئے 40 بچوں کو بازیاب کرا لیا۔ مسیحی مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد نے ان بچوں کو دو عمارتوں میں یرغمال بنا رکھا تھا حکام جرمن پولیس نے مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے فرقے کے زیر استعمال دو عمارتوں میں چھاپہ مارتے ہوئے چالیس بچوں کو بازیاب کرا لیا ہے۔ ان بچوں کو مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔
جرمن اخبارات اور میں شائع ہونے والی رپورٹوں کے مطابق ملکی پولیس کے قریب ایک سو اہلکاروں نے جنوبی صوبے باویریا میں کارروائی کرتے ہوئے ان بچوں کو بازیاب کرایا۔ پولیس کی جانب سے یہ کارروائی عدالتی احکامات پر کی گئی۔ اٹھائیس بچوں کو ڈائننگن نامی ایک چھوٹے سے شہر میں قائم کلوسٹر زمرمان نامی ایک سابقہ مونیسٹری سے جبکہ بارہ مزید بچوں کو ووئرنٹز نامی ایک دوسرے مقام سے بازیاب کرایا گیا۔
مقامی اہلکاروں کے مطابق ان چھاپوں کی مدد سے اس گروپ کے خلاف نئے شواہد ملے ہیں جن سے گروپ کے اراکین کی جانب سے بچوں کے خلاف کافی زیادہ اور ایک عرصے سے جاری تشدد کی نشاندہی ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ اس مسیحی مسلک نے بچوں کے خلاف تشدد کے حوالے سے تمام الزامات کو رد کر دیا ہے۔ اس کیس کے حوالے سے تحقیقات مکمل ہونے تک بازیاب کرائے جانے والے بچوں کو ان کے رشتہ داروں کے بغیر ہی عارضی طور پر خصوصی ہاسٹلز میں رکھا جائے گا تا کہ ان کا مناسب خیال رکھا جا سکے۔
واضح رہے کہ یہ گروپ اس سے قبل بھی تنازع کی زد میں رہ چکا ہے۔ ایک موقع پر یہی گروپ اپنے ہاں موجود بچوں کو سکول بھیجنے کے لئے اس لیے رضامند نہیں تھا کیونکہ بچوں کو سکولوں میں جنسی تعلیمات بھی فراہم کی جاتی ہیں۔ اس گروپ کا موقف ہے کہ بچوں کو ایسی تعلیم دینا مسیحی مذہب کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ واضح رہے کہ بارہ قبائل دراصل ایک امریکی گروپ ہے۔
جس کی جرمنی میں بھی شاخ قائم ہے۔ یہ مسلک اپنے آپ کو روحانی اخوت پر مبنی ایک گروپ قرار دیتا ہے۔ اس کی جانب سے جاری کردہ ایک آن لائن بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم ایک کھلی اور شفاف کمیونٹی ہیں جو بچوں کے خلاف کسی بھی قسم کے تشدد کو برداشت نہیں کرتی”۔ ان کے بقول بچوں کو کافی اچھے ماحول میں تعلیم و تربیت فراہم کی جاتی رہی ہے۔