جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) مذکورہ شخص نے جرمن چانسلر کے دفتر میں کام کے دوران مصری خفیہ ایجنسی کے لیے جاسوسی کرنے کا اعتراف کیا تھا۔
جرمنی میں ایک سرکاری وکیل نے بدھ 10 مارچ کو بتایا کہ برلن کی ایک عدالت نے ایک مصری نژاد جرمن شہری کو چانسلر انگیلا میرکل کے دفتر میں کام کرنے کے دوران مصر کے لیے جاسوسی کرنے کا قصوروار ٹھہرایا ہے۔
مصری نژاد 66 سالہ جرمن شہری امین سن 1999 سے ہی برلن میں محکمہ پریس کے وفاقی ادارے میں کام کرتے تھے۔ جاسوسی سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران انہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کر لیا تھا اور عدالت نے انہیں گزشتہ ہفتے اس کے لیے قصوروار قرار دیا تھا۔ عدالت نے اب انہیں ایک برس نو ماہ کے قید معطل کی سزا سنائی ہے۔
سرکاری وکیل نے صحافیوں سے بات چیت میں بتایا کہ امین مصر کی خفیہ ایجنسی ‘جنرل انٹیلیجنس سروس’ (جی آئی ایس) کو سن 2010 اور 2019 کے درمیان معلومات فراہم کرتے رہے تھے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ امین نے اپنے عہدے کا غلط فائد اٹھاتے ہوئے جرمن میڈیا کی کوریج کے بارے میں مصر کو اطلاعات فراہم کرنے کے لیے دفتری آلات کا بھی استعمال کیا۔
انہوں نے جرمن پارلیمان میں ترجمے کا کام کرنے والے ایک شخص کو بھی مصری خفیہ ایجنسی کے لیے جاسوسی پر آمادہ کرنے کی بھی نا کام کوشش کی۔ انہوں نے اس کیس میں اپنے پانچ شامی نژاد میڈیا ساتھیوں کا بھی نام لیا تھا۔
ہالینڈ کی نوجوان خاتون ماتا ہری نے 1910ء کے عشرے میں پیرس میں ’برہنہ رقاصہ‘ کے طور پر کیریئر بنایا۔ ماتا ہری کی رسائی فرانسیسی معاشرے کی مقتدر شخصیات تک بھی تھی اور اس کے فوجی افسروں اور سایستدانوں کے ساتھ ’تعلقات‘ تھے۔ اسی بناء پر جرمن خفیہ ادارے نے اسے جاسوسہ بنایا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد فرانسیسی خفیہ ادارے نے بھی اسے اپنے لیے بطور جاسوسہ بھرتی کرنے کی کوشش کی۔ یہ پیشکش قبول کرنے پر وہ پکڑی گئی۔
تفتیش کرنے والے حکام نے تاہم چھان بین کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ان کے پاس حکومت کی خفیہ معلومات تک کوئی رسائی نہیں تھی۔ مصری خفیہ ایجنسی کو معلومات فراہم کرنے کے بدلے میں مصری حکام کا ان کے ساتھ بہتر سلوک ہوتا تھا اور سینیئر حکام کی نظر میں انہیں ترجیح حاصل تھی۔
جرمنی کے خفیہ اداروں کے مطابق مصری خفیہ ایجنسی جی ایس آئی جرمنی میں رہنے والے مصریوں کو اپنے لیے جاسوسی کرنے کے لیے بھرتی کرنے کے لیے کوشش کرتی رہی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق مصری حکومت مصری اپوزیشن رہنماؤں سے متعلق معلومات جمع کرنے کی بھی کوشش کرتی تھی۔
سن 2014 میں فوجی سربراہ عبد الفتاح السیسی کے مصر کے صدر کے طور پر عہدہ سنبھالنے کے بعد سے ہی حزب اختلاف کے خلاف سخت کریک ڈاؤن جاری ہے جس کی وجہ سے بہت سے مصری کارکن، صحافی اور دانشور اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور جرمنی میں پناہ لے رکھی ہے۔ مصر کی توجہ ایسے ہی افراد کی جاسوسی پر رہی ہے۔