جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمنی، برسلز میں مجوزہ عطیہ دہندگان ملکوں کی کانفرنس میں شام میں خانہ جنگی کے متاثرین کے لیے اس بار بھی اضافی مدد کا وعدہ کرے گا۔
جرمنی، شام میں گزشتہ دس برسوں سے جاری خانہ جنگی سے متاثرہ افراد کی مدد کے لیے ایک ”خاطر خواہ” رقم مہیا کرنے کے لیے تیار ہے۔ شام کے لیے تازہ امداد مہیا کرنے پر بات چیت کے لیے برسلز میں 30 مارچ منگل کے روز ایک’ڈونر کانفرنس‘ میں دنیا کے 60 ممالک کے نمائندے شرکت کر رہے ہیں۔
پیر کے روز جرمن وزارت خارجہ کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ جرمنی نے گزشتہ برس شام کو ایک ارب 88 کروڑ امریکی ڈالر کی امداد فراہم کی تھی اور اس برس بھی وہ تقریباً اس سے زیادہ رقم اور مزید دیگر اہم وسائل مہیا کرنے کی تصدیق کرتا ہے۔
گزشتہ برس شام کو مجموعی طور پر تقریبا ًپونے ساتھ ارب ڈالر کی رقم مہیا کی گئی تھی جبکہ مجموعی طور پر وعدہ تقریبا ًساڑھے چار ارب ڈالر کا کیا گیا تھا۔ اس میں سے جرمنی نے منصوبے سے زیادہ ایک اعشاریہ سات ارب یورو کی امداد فراہم کی تھی۔
امداد کا بیشتر حصہ غذائی اشیا، ادویات اور بچوں کی تعلیم پر خرچ کیا جائے گا۔ یہ رقم بیشتر امدادای ایجنسیوں یا پھر بڑی تعداد میں مہاجرین کو پناہ دینے والے ممالک میں تقسیم کی جائے گی۔
شام کے بڑے علاقے پر مختلف باغی گروپوں اور صدر بشار الاسد کے درمیان کنٹرول کے حصول کی جنگ کے باعث ملک زبردست خانہ جنگی کا شکار ہے۔ اس تنازعہ میں اب تک کئی غیر ملکی طاقتیں شامل ہوچکی ہیں اور کئی افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
توقع ہے کہ اس کانفرنس میں جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس اپنے بیان میں شام میں حقیقی امن کے قیام اور اس کے لیے مذاکرات پر زور دیں گے۔ ان کے خطاب کی ایک نقل ڈی ڈبلیو کو حاصل ہوئی ہے جس میں ان کا کہنا ہے، ”بڑے سے بڑا اور طویل ترین امدادی قافلہ بھی پائیدار امن کا متبادل نہیں ہو سکتا۔”
ان کا مزید کہنا تھا، ”شام کی حکومت اور اس کے حامیوں کو بالآخر یہ بات سمجھنی ہوگی کہ ایک سنجیدہ سیاسی عمل ہی ملک کو ایک مستحکم مستقبل فراہم کر سکتا ہے۔ تباہ شدہ ملک میں دکھاوے کے لیے انتخابات حقیقی مذاکرات کے متبادل ہرگز نہیں ہو سکتے۔”
انہوں نے مزید کہا، ”شام کے اس سانحے کو آئندہ مزید 10 برسوں تک جاری رہنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ لہذا ہم لاکھوں شامی شہریوں کی تکالیف دور کرنے اور امن کے امکان کو حاصل کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی کوششوں کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔”
انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے متنبہ کیا ہے کہ شام میں زمینی صورت حال دن بہ دن مزید خراب ہوتی جا رہی ہے۔ انہوں نے امداد کے حوالے سے بھی حکمت عملی بدلنے پر زور دیا ہے۔
یورپی یونین ابھی تک ان تمام علاقوں میں امداد فراہم کرنے کو مسترد کرتی رہی ہے جو صدر بشار الاسد کے زیر کنٹرول ہیں۔ بلاک کا موقف ہے وہ ایسا اسی صورت میں کرنے پر راضی ہوگی جب شام میں سیاسی حل کے لیے کوئی ٹھوش پیش رفت ہوگی۔
جرمنی میں بعض کیتھولک خیراتی اداروں کا کہنا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ ان علاقوں میں بھی تعمیراتی پروجیکٹ کو امداد فراہم کی جائے جو صدر اسد کے زیر کنٹرول ہیں۔ ‘جرمن کیتھولک کاٹیاز’ کے صدر پیٹیر نیہر نے شام میں انسانی صورت حال کو تباہی سے تعبیر کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے سے، ”جس ایمرجنسی امداد پر توجہ دی جاتی رہی ہے اسے اب ترک کرنے کی ضرورت ہے۔ ”
نیہر نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے سے بات چیت میں کہا، ” حکومت کے زیر کنٹرول علاقوں میں بھی ہمیں تعمیراتی اقدامات کرنے کی اجازت دینی ہوگی۔ ہم لوگوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے سر پر بھی ایک چھت ہو۔ ہمیں بچوں کے لیے اسکول اور صحت کے مراکز تعمیر کرنے ہوں گے۔”
شام میں گزشتہ ایک عشرے سے جاری خانہ جنگی اور پھر حالیہ معاشی بحران کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں غربت و افلاس میں زبرست اضافہ ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق شام میں تقریبا ًسوا کروڑ لوگ، یعنی ملک کی تقریبا ًساٹھ فیصد آبادی، بھوک سے دو چار ہے۔ ایسے افراد جو غذائی اشیا کی امداد کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے ان کی گزشتہ ایک برس کے دوران تعداد دوگنی ہوگئی ہے۔