جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے مطابق جرمنی میں متاثرین کی یہ تعداد امریکا، اسپین اور اٹلی کے بعد چوتھے نمبر پر ہے۔ تاہم یورپ کے سب سے بڑے ملک میں ہلاکتوں کی تعداد اب بھی ان ملکوں سے کہیں کم ہے۔
اٹلی میں کورونا سے ہلاکتوں کی تعداد سولہ ہزار کو پہنچ رہی ہے۔ اسپین میں ساڑھے بارہ ہزار جبکہ امریکا میں اتوار کو یہ تعداد ساڑھے نو ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ امریکی حکام کے مطابق آنے والے دنوں میں ہلاکتیں خطرناک حد تک بڑھ سکتی ہیں۔
دنیا میں اس وبا سے کل اموات کی تعداد انہتر ہزار سات سو سے زائد ہو چکی ہے۔ جاپان میں وبا کی روک تھام کے لیے حکومت ایمرجنسی لگانے پر غور کر رہی ہے۔ جاپان میں چین، یورپ، امریکا کی نسبت کیسز کی تعداد بہت کم ہے، لیکن حکام کو خدشہ ہے کہ تیزی سے بڑھتے ہوئے کیسز سے ملک میں صحت کا نظام مفلوج ہو سکتا ہے، جس کے گہرے معاشی اور سیاسی اثرات ہو سکتے ہیں۔ حکومت پر دباؤ ہے کہ وہ کیسز روک تھام کے لیے ہنگامی اقدامات کرے۔
جاپان میں اب تک کورونا وائرس کے پینتیس سو مریض سامنے آئے ہیں، جن میں ہزار کیسز صرف دارلحکومت ٹوکیو میں تھے۔ جاپان کی معیشت پہلے سے سست روی کا شکار ہے اور بعض حلقوں کو خدشہ ہے کہ ایمرجنسی اختیارات کے تحت نقل و حرکت محدود کرنے سے کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوں گی۔ صورتحال کے تدارک کے لیے توقع ہے کہ حکومت اس ہفتے اربوں ڈالر کے ریلف پیکج کا اعلان کرنے جا رہی ہے۔
ادھر برطانیہ میں وزیراعظم بورس جانسن کو ہسپتال میں داخل کر دیا گیا ہے۔ وہ دس روز پہلے کورونا وائرس سے متاثرہ پائے گئے تھے۔ حکام کے مطابق یہ “احتیاطی اقدام” ان کے ڈاکٹروں کے مشورے پر لیا گیا ہے۔ برطانیہ میں متاثرہ کیسز کی تعداد اڑتالیس ہزار کو پہنچ رہی ہے جبکہ ہلاکتوں کی تعداد چار ہزار نو سو سے تجاوز کر گئی ہے۔
ملکہ برطانیہ نے لوگوں پر زور دیا ہے کہ وہ نقل و حرکت محدود کرنے سے متعلق حکومتی ہدایات پر عمل کریں۔ قوم سے اپنے خطاب میں انہوں نے امید ظاہر کی کہ برطانیہ ضرور کورونا واٗرس کی بیماری کے خلاف لڑائی میں کامیاب ہوگا۔