جرمنی میں تعلیم اور سکول کا نظام ،افعال اور فرائض۔جرمنی میں سکولوں کے ذمہ دار کون ہیں؟سکول ایک قومی معاملہ ہے اس وجہ سے سکول کے نظام کو قانونی سطح پر کنٹرول نہیں کیا جاتا، وفاقی صوبوںکی وزارت تعلیم کے ادارے جو نہ صرف تعلیمی عملے کیلئے بلکہ نصاب کے بھی ذمہ دار ہیںیہ ادارے سکول کی انتظامیہ کے ساتھ تعلیمی نکات پر مل کر کام کرتے ہیںیعنی جوائنٹ سسٹم کے تحت اپنے اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔سکولوں کے عملے کے اخراجات و دیگر مواد مثلاً کنسٹرکشن ،ڈیزائن، انٹرٹینمنٹ، صفائی، کینٹین، تنظیم و تدریسی سامان،بلیک بورڈ ز،فرنیچرز،نصابی کتب، انسائیکلو پیڈیا ،ٹیلی وژن، اوور ہیڈپروجیکٹرزاور دیگر آلات کا بلدیہ ذمہ دار ہوتا ہے، سکول کے نظام کو مندرجہ ذیل کیٹاگری میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
پرائمری سکول۔تمام بچے ابتدائی تعلیم کا آغاز پرائمری سکول میں پہلی کلاس سے کرتے ہیں،صبح آٹھ بجے سے دن بارہ بجے تک کلاسز ہوتی ہیںاور تقریباًتمام صوبوں میں طالب علموں کو یکساں طریقے سے نوٹ دئے جاتے ہیں،پرائمری سکولز میں بچے چوتھی کلاس تک تعلیم حاصل کرتے ہیں اور چوتھی کلا س یعنی پرائمری سکول ختم ہونے پر بچوں کو سرٹیفیکیٹس جاری کئے جاتے ہیں جس میں ان کی تعلیم و دیگر کارکردگی کو بالترتیب شامل کیا جاتا ہے مثلاً سپورٹس ،آرٹس ،میوزک وغیرہ۔
سیکنڈری سکول۔جرمنی میں سیکنڈری سکول سے مراد جونئیرہائی سکول ،ہائی سکول یا جامع ہائی سکول ہے جہاں بچے پانچویں کلاس سے دسویں کلاس تک تعلیم جاری رکھتے ہیں ،اس دوران فیوچر پروفیشن یا دسویں کلاس کے بعد ملازمت وغیرہ کے بارے میں اظہار کیا جاتا ہے۔ کالج۔کالج سسٹم میں فرسٹ ائیر سے تھرڈ ائیر تک کلاسز ہوتی ہیں اسکے بعد سٹوڈنٹس اپنے فیوچرو پروفیشن کو مد نظر رکھتے ہوئے یونیورسٹی میں قدم رکھتے ہیں یا ملازمت کیلئے ایپلائی کیا جاتا ہے۔
لازمی تعلیم۔کون کتنی دیر تک سکول میں رہتا ہے؟۔جرمنی میں دسویں کلاس تک تعلیم لازمی قرا دی گئی ہے ہر بچے پر لازم ہے کہ وہ دسویں کلاس تک تعلیم حاصل کرے اہم بات یہ ہے کہ اگر طالب علم پڑھائی میں کمزور ہے اور ساتویں یا آٹھویں کلاس میں دو بار فیل ہوا ہے تو اسے سکول سے خارج کر نے کے بعد اسکے پسندیدہ پروفیشن کو مد نظر رکھتے ہوئے مخصوص انسٹی ٹیوٹ میں داخل ہونا پڑتا ہے جہاں کم سے کم تین سال کا کورس کروایا جاتا ہے،جرمنی کے تمام صوبوں میں تعلیمی نظام یکساں ہے ۔والدین یا بچوں کے سرپرست پر لازم ہے کہ وہ بچوں کو سکول جانے کی عمر میں اپنے علاقے میں موجود سکولوں میں داخل کروائیں،سکول میں داخلے کے لئے تعلیم سے منسلک حکومتی ادارے ایک سال قبل ہی والدین کو فارمز ارسال کر دیتے ہیں کہ ایک سال کے اندر قریبی سکول ایڈمنسٹریشن سے بچوں کے داخلے کیلئے رابطہ کیا جائے اور جہاں جگہ میسر ہو داخل کروایا جائے،تعلیمی قوانین جرمن اور غیر ملکی بچوں پر یکساں لازم ہیں۔
اگر والدین بچوں کو سکول نہیں بھیجتے تو کیا ہوگا؟۔بچوں کو تعلیم حاصل کرنے اور سکول بھیجنے کے ذمہ دار والدین ہیں اگر بچوں کو سکول میں داخل نہیں کروایا جاتا تو ادارے پہلے وارننگ دیتے ہیں کہ تعلیم کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ جرم ہے اور کوتاہی کرنے پر بھاری جرمانہ ادا کرنا ہوگا ،ان معاملات میں سکول انتظامیہ اور سرکاری ادارے مشترکہ طور پر اپنے فرائض انجام دیتے ہیں ۔جرمنی میں سرکاری سکولوں کی تعداد تقریباً سینتیس ہزار ہے جبکہ نجی سکول تین ہزار ہیں جہاں چودہ فیصد بچے زیر تعلیم ہیں،علاوہ ازیں مختلف شعبوں کے ان گنت انسٹی ٹیوٹ بھی ہر شہر میں ہیں۔
کیا بچے جرمن سکول سسٹم اور تعلیمی نظام سے خوش ہیں؟ نئی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ جرمنی میں چھ سے چودہ سال کی عمر کے بچے آج کے سڑے ہوئے وحشیانہ میڈیا سسٹم کی بجائے اپنی فیملی سے محبت کرتے ہیں اور بخوشی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں زیادہ تعداد میں بچوں کو انکی فیملی اہم ہے ،چھ سے چودہ سالہ تین چوتھائی لڑکے اور لڑکیاں اپنا بچپن اور لڑکپن اپنی فیملی اور دوستوں کے درمیان گزارنا چاہتے ہیں ،بچوں کی اس سوچ کے بارے میں برلن سے شائع ہونے والے ایک میگزین اور یونیسیف کے ادارے نے مفصل رپورٹ تیا ر کی ہے۔
جس میں بتایا گیا ہے کہ ملازمت کرنے والے والدین کے پاس وقت کی کمی کے باوجود بچوں کو اس بات کا قطعی افسوس نہیں کہ انکے والدین انہیں کم وقت دے پاتے ہیں بچوں کو اپنے والدین کی ذمہ داریوں کا احساس ہے ،بچوں کی پرورش ،تعلیم اور مستقبل سے منسلک ایک ادارے نے بتایا کہ موجودہ فیملی ،تعلیمی سسٹم اور روز مرہ کے حالات سے تریپن فیصد بچے زیادہ تر مطمئن ہیں چوالیس فیصد بہت مطمئن اور صرف چار فی صد کا خیال ہے کہ فیملی اور تعلیمی نظام درست نہیں ،کیونکہ والدین بچوں کے ساتھ کم وقت گزارتے ہیں ،دوسری طرف والدین میں چودہ فیصد مائیں اور انتیس فیصد باپ محسوس کرتے ہیں کہ بچوں کیلئے ان کے پاس بہت کم وقت ہوتا ہے اور اس وجہ سے وہ مطمئن نہیں کیونکہ ملازمت آڑے آتی ہے۔
University of Berlin
برلن یونیورسٹی کے سماجی علوم کے ماہر نے بتایا کہ بچوں کی خوشنودی اور ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے کیلئے اکثر والدین کم نیند لیتے ہیں تاکہ ان کے تعلیمی نظام پر بھی کڑی نظر رکھ سکیں۔وفاقی وزیر تعلیم نے ایک میگزین کو بتایا کہ ہمارے لئے بہت خوشی کی بات ہے کہ والدین کوشش کرتے ہیں کہ بچوں کو زیادہ سے زیادہ وقت دیا جائے اور چھ سے چودہ سال کے بچے خوشی خوشی سکول جانا اور سسٹم کو پسند کرتے ہیں،ہم کئی سالوں سے سکولوں کا معیار اور کارکردگی بہتر بنانے کیلئے پرخلوص طریقے سے کام کر رہے ہیں۔
نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ ایک سروے کے مطابق زیادہ تر چھ سے چودہ سال کے ستاسی فیصد بچے سکول جانا اور تعلیم حاصل کرنا بہت زیادہ پسند کرتے ہیں سکول سسٹم کو بہت زیادہ یا اچھا سمجھتے ہیں صرف تئیس فیصد سکول یا تعلیم کو بوجھ سمجھتے ہیںجبکہ دوسری طرف والدین جن میں اسی فیصد مائیں اور تیراسی فیصد باپ مجموعی طور پر سکول سسٹم ان کی کارکردگی اور معیار پر مطمئن ہیں اور مثبت ریمارکس دئے ہیں۔
اساتذہ کیلئے اعلیٰ تعریف ۔سکولوں کے اچھے سسٹم کے علاوہ اساتذہ کی بہترین کارکردگی اور شفیقانہ رویے کے بغیر بچوں کی تعلیم و تربیت نامکمل ہے،اسی فیصد والدین کا کہنا ہے کہ سکول میں اساتذہ کا رول بہت اہم ہے وہ بچوں کے لئے بہت قیمتی شخصیت اور مددگار ثابت ہوتے ہیں ،جرمنی کی اہم شخصیات کا کہنا ہے کہ اساتذہ بچوں کا آئیڈیل اور رول ماڈل کا کردار ادا کرتے ہیں ،اٹھاون فیصد بچوں کا کہنا ہے کہ اساتذہ انہیں اظہار رائے کی آزادی دیتے ہیں کہ وہ اپنے خیالات کو اپنے طریقے سے بیان کر سکیں اور اس عمل سے بچے اساتذہ کے رویے سے خوش ہیں صرف بیس فیصد بچوں کا کہنا ہے کہ ہمیں اظہار رائے کا موقع نہیں دیا جاتا۔
دوہزار دس کے سروے کے مقابلے میں آج اقدار ،جرات اور رواداری کا قیام نئی نسل کیلئے اہم جز بن گیا ہے اچھے آداب اور ماحولیاتی تحفظ کی بچوں میں بہت زیادہ اہمیت ہو گئی ہے،ستر فیصد بچوں کا کہنا ہے کہ موجودہ سسٹم جاری رہنا چاہئے۔
ادارے نے ایک ہزار بارہ بچے جن کی عمریں چھ سے چودہ سال تھیں ان سے انٹر ویوز لئے ،ان بچوں کے والدین کو بھی ان سوالات میں شامل کیا گیا جس سے نتیجہ سامنے آیا کہ جرمنی میں سکولز ،بچے ،والدین ،اساتذہ اور موجودہ تعلیمی نظام سے کون کتنا مطمئن ہے۔
جرمنی میں بچوں پر تشدد کرنا جرم ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ تمام مغربی ممالک میں اساتذہ کو کسی بچے سے شکایت ہے تو اس کے والدین سے رابطہ کیا جاتا ہے اور تمام رپورٹس سکول انتظامیہ تک پہنچائی جاتی ہیں،اور ہمارے ملک میں اساتذہ بچوں کی ایک معمولی سی غلطی پر اتنا تشدد کرتے ہیں کہ ہڈی پسلی تک توڑ دی جاتی ہے،یہ ایک ناقابل تلافی جرم ہے ،اساتذہ کا کام بچوں کو تعلیمی درس دینا ہے نہ کہ ان معصوموں کو پیٹنا۔
جب تک پاکستان کا تعلیمی نظام درست نہیں ہو گا جیسے کہ چند تعلیمی نکات و قوانین اوپر بیان کئے ہیں بچے سکول ،کتاب اور تعلیم سے دور بھاگیں گے، پاکستان کے وزارت تعلیم کو اس ترقی یافتہ دور میں بیدار ہونا پڑے گاکیونکہ بچے ملک و قوم کا سرمایہ اور مستقبل ہیں۔ ہر باشعور شخص نے بار بار حکومتوں کو یاد دہانی کرائی کہ تعلیمی نظام درست کیا جائے کہ کوئی ملک وقوم تعلیم کے بغیر ترقی نہیں کر سکتے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان میں آنے والی کون سی صدی میں تعلیمی نظام درست کیا جائے گا ،کیا جائے گا بھی کہ نہیں؟۔