جرمنی الیکشن کا موسم

U.S.

U.S.

برلن : ( میڈیا سیل پی پی پی جرمنی )سال میں چار موسم ہوتے ہیں موسم گرما موسم خزاں اور موسم سرما ،لیکن ایک موسم وہ بھی ہوتا ہے جو مختلف ملکوں میں مختلف عرصہ کے بعد آتا ہے یہ موسم امریکہ میں چار سال بعد برطانیہ میں پانچ سال بعد جرمنی میں چار سال بعد سپین میں چار سال بعد اٹلی میں پانچ سال ،آئرلینڈ چار سال ، کینیڈا میں پانچ سال اور روس میں پہلے چار سال اب سال بعد ہندوستان میں پانچ سال ،برازیل چار سال ،ترکی پانچ سال ، جاپان چار سال ، انڈونیشیا پانچ سال ، آسڑیلیا تین سال ، نیوزی لینڈ تین سال اور ساوتھ افریقہ میں پانچ سال بعد آتا ہے۔

یہی موسم پاکستان میں پانچ سال بعد تشریف لاتا ہے اس موسم کا نام ہے ”الیکشن کا موسم ” لیکن شومئی قسمت ہے کہ پاکستان میں یہ موسم ڈکٹیٹر شپ کی وجہ سے تواتر سے نہ آسکا تھا ،آج کل یہ موسم پاکستان کے دروازے پر دستک دے رہا ہے بلکہ الیکشن کی گہماگہمی اس وقت اپنے عروج پر ہے انشاء اللہ گیارہ مئی کا سورج پیپلز پارٹی کی بے بہا قربانیوں اور جدوجہد کے بعد جمہوریت کی سنہری کرنوں کے ساتھ طلوع ہوگا،پیپلز پارٹی کی حکومت نے غیر جانبدار حکومتوں کا قیام کر کے ملک میں ایک نئی اور جمہوری روایت کو جنم دیا ہے جو مستقبل میں ملک کو جمہوری انداز میں چلانے کیلئے مفید اور معاون ثابت ہوگی۔

اس موسم میں سیاسی پارٹیاں جلسے جلوس اور ریلیوں کا اہتمام بڑے کروفر سے کر رہی ہیں پاکستان کی تمام بڑی سیاسی پارٹیاں اس عمل میں بھر پور حصہ لے رہی ہیں ، پاکستان پیپلز پارٹی اس الیکشن میں جلسے جلوس کرنے سے اجتناب کر رہی ہے اس کی وجہ ظاہر طالبان کی دھمکی ہے پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت ماضی میں ان دہشت پسندوں کا شکار ہو چکی ہے اب اس میں مزید جنازے اٹھانے کی ہمت نہیں ، مقامی طور ہر پیپلز پارٹی کے رہنمااور امید وار اپنی انتخابی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں ،اپنے دورئے حکومت میں پیپلز پارٹی نے دہشت گردوں کے خلاف زبردست جنگ لڑی ہے دنیا کیہہ رہی تھی کہ طالبان دارلحکومت سے چند قدم دور رہ گئے ہیں اور پھر جلد ہی دارلحکومت میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔

PPP

PPP

پیپلز پارٹی کی حکومت نے اسے نہ صرف غلط ثابت کیا بلکہ سوات میں کامیاب اپریشن کے بعد اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑئے پیپلز پارٹی کی حکومت نے جرات سے کام لیتے ہوئے کافی عرصہ تک امریکہ کی ترسیل بند رکھی ،مزید امریکہ کی انتہائی مخالفت کے باوجود ایران سے سوئی گیس کا تاریخی معاہدہ کیا ۔ صوبوں کو مکمل خود مختاری دی ،بینظیر وسیلہ پرگرام کی وجہ سے ہزاروں خاندان خوشحال زندگی بسر کر رہے ہیں اور مناسب کاروبار کرکے عزت کی روٹی کما رہے ہیں ،پاکستان کے قصبات اور گائوں پیپلز بے نظیر پروگرام کی وجہ سے کافی تبدیلی نظر آتی ہے پیپلز پارٹی ملک کی واحد جماعت ہے۔

جس نے پاکستان کی فلاح و بہبود کیلئے صرف زبانی دعوے نہیں کیے بلکہ وطن عزیز کے چمن میں اپنے خون سے آبیاری کی ہے یہی خصوصیت پیپلز پارٹی کو دوسری پارٹیوں کے مقابلے میں برتر مقام دیتی ہے۔ تحریک انصاف ملک میں ابھرتی ہوئی نئی سیاسی جماعت ہے عمران خان نے پارٹی کیلئے کافی جدوجہد کی ہے ان کی پارٹی میں ٹکٹوں کے مسئلہ میں کافی شکست و رنجیت ہوئی ہے پرانے گھاگ سیاست دانوں نے تحریک انصاف میں اپنی ایک خاص جگہ بنالی ہے دوسرے صوبوں میں نہیں لیکن پنجاب میں تحریک انصاف اپنا ایک مقام بنا چکی ہے لگتا یوں ہے کہ مستقبل میں ملک کی نمایاں جماعت ہوگی طالبان کیلئے عمران خان نرم گوشہ رکھتے ہیں۔

اس وجہ سے ان کو طالبان خان کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے یہ طرزعمل عمران خان کیلئے منفی تاثر ہے۔ مسلم لیگ ن بھی سیاسی طور پر کافی سرگرم دکھائی دے رہی ہے نواز شریف نے سعودی عرب سے واپسی پر عہد کیا تھا کہ وہ ایسے افراد کو جنہوں نے مشکل حالات میں پارٹی کو چھوڑ دیا تھا ، ن لیگ میں شامل نہیں کیا جائے گا لیکن نواز شریف نے اقتدار کی لالچ میںاپنے تمام اصول بالائے طاق رکھتے ہوئے مشرف کے قریبی ساتھیوں کو اپنی جماعت میں شامل کر چکے ہیں بلکہ ماروی میمن اور امیر مقام جیسے ڈکٹیٹرکے ساتھیوں کو ٹکٹ بھی دے چکے ہیں اس وقت نواز شریف نے نئے آنے والے 146 امیدواروں کو ٹکٹ دے چکے ہیں۔

Shahbaz Sharif

Shahbaz Sharif

شہباز شریف سنگھاسن اقتدار پر برجمان ہونے پر اتنی جلدی میں الٹے سیدھے وعدے و بیانات دیتے رہے ہیں اور کئی مقام پر ان کی زبان قابو سے باہر پھسل پھسل جارہی ہے مثلا ان کا بیان ہے کہ ہم لوڈ شیڈنگ چھ ماہ میں ختم کر دیں گے ، پھرکہتے ہیں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ڈیڑھ سال میں کر دیا جائے گا ، ایک اور مقام پر دو سال کا وعدہ کرتے ہیں ، آخر میں ایک مقام پر اعلان فرماتے ہیں کہ تین سال تک لوڈشیڈنگ ختم نہ کی تو میرا نام شہباز شریف نہیں کہیں ان کی زبان یوں گویا ہوتی ہے کہ عوام گیارہ مئی کو شیر ، تیر اور بلے سب کو تباہ کر دیں گے شہباز شریف کی ایسی صورتحال پر کیاکہا جا سکتا ہے ۔ ( دل کے دریا کو کسی روز اتر جانا ہے !!! اتنا بے سمٹ نہ چل ، لوٹ کر گھر جانا ہے )۔

متحدہ قومی محاذ اور نیشنل عوامی پارٹیاں اپنے اپنے علاقوں میں اپنا ایک خاص مقام رکھتی ہیں ان کے پیروں کار ایسے نہیں ہیں کہ وہ ہوا کے جھونکوں سے ادھر ادھر بکھرتے پھریں ۔ اس الیکشن میں پیپلز پارٹی کی طرح یہ ترقی پسند اعتدال پسند جماعتیں بھی طالبان کی زد پہ ہیں ان کے کئی اجلاسوں میں بم دھماکے بھی ہو چکے ہیں ۔اپنی حالیہ اجلاسوں میں ان جماعتوں نے مشترکہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ ہر صورت الیکشن کا بائیکاٹ نہیں کریں گی اور طالبان کے ظلم و تشدد کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔

ہم دیار غیر میں مقیم پاکستانی اپنے وطن سے بے بہا محبت کرتے ہیں اور وطن کی ترقی کے خواہاں ہیں اس ضمن میں بڑی سے بڑی قربانی دینے سے درتیغ نہیں کرتے ، وطن سے دوری کا یہ مطلب نہیں کہ وطن بھی آپ سے دور ہوگیا ہے ”بیرون ملک پاکستانی ”اندرون ملک سے زیادہ پاکستانی ہوتا ہے ۔ ہم اوورسیز پاکستانیوں کی دعا ہے کہ ” گیارہ مئی کو جو کچھ بھی ہو وہ وطن عزیز کیلئے بہتر ہو، انشاء اللہ ” َ۔
تحریر : پرویز اختر زیدی