جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) دیگر ممالک کے برعکس جرمنی میں قدرتی آفات سے نمٹنے کا نظام کمیونل اور میونسپل ڈھانچے پر مبنی ہے، تاہم حالیہ تباہ کن سیلابوں کے بعد اس پر کئی طرح کے سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔
جرمنی میں حالیہ سیلابوں کے بعد یہ بحث جاری ہے کہ ملک میں شہری تحفظ اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے نظام میں کتنے سقم موجود ہیں۔ جنوب مغربی جرمنی میں شدید بارشوں اور سیلابوں نے بڑی تباہی پھیلائی جب کہ یہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا بہتر نظام کی موجودگی میں اس تباہی کو کم کیا جا سکتا تھا؟
گزشتہ ہفتے جب شدید بارشوں کے بعد سیلابی صورت حال پیدا ہوئی تو مختلف علاقوں میں مقامی انتظامیہ نے اپنے اپنے طور پر ریسکیو کارروائیوں کا آغاز کیا، تاہم جلد ہی یہ بات واضح ہو گئی کہ یہ قدرتی آفت ان کی استطاعت سے بہت آگے کی ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے منظم اور بڑے آپریشن کی ضرورت ہے۔
جرمنی میں مجموعی طور پر 294 کاؤنٹیز اور 107 خودمختار میونسپلٹیز ہیں، جن میں پوٹس ڈام، کولون اور لائپزگ جیسے بڑے شہر بھی شامل ہیں۔ بڑے بحران کی صورت میں مقامی کاؤنٹیز کے گورنر کم متاثرہ علاقوں اور شہروں سے مدد مانگ سکتے ہیں۔ اضافی طور پر پولیس، فائر بریگیڈ اور طبی امداد کے وسائل مقامی ریاستی حکومتوں کے پاس ہوتے ہیں۔ سیاسی اعتبار سے جرمنی سولہ وفاقی ریاستوں کا مجموعہ ہے۔
جب ریاستی سطح پر تمام تر انتظامات ناکام ہو جائیں، فقط اس وقت وفاقی حکومت کو اجازت ہے کہ وہ وفاقی دفتر برائے تحفظ اور ڈیزاسٹر اسسٹنس (BBK) کو حرکت میں لائے اور کسی مقام پر فعال انداز سے کارروائی کرے۔ اس کے لیے بھی کسی کمیونٹی یا میونسپلٹی کو پہلے ہنگامی حالت کا اعلان کرنا پڑتا ہے۔ ایسی صورت میں جرمنی کی مسلح افواج کو بھی ریسکیو کارروائیوں کے لیے طلب کیا جا سکتا ہے یا جرمنی کی وفاقی پولیس فورسز کو امن قائم رکھنے کی ذمہ داری دی جا سکتی ہے۔
جرمنی میں قدرتی آفات میں امدادی کارروائیوں میں شامل ہونے والی ایک اور تنظیم وفاقی ادارہ برائے ٹیکنیکل ریلیف ہے۔ اس ادارے کے پاس تکنیکی صلاحیتیں اور ماہریں ہیں، جو فعال انداز سے سیلاب یا زلزلے جیسے حالات میں کام کر سکتے ہیں۔ اس ادارے کے پاس 80 ہزار کی افرادی قوت ہے، جس میں زیادہ تر نیم پیشہ ور رضاکار ہیں جنہیں بحالی کا کام سونپا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی جگہ پر کسی قدرتی آفت کی وجہ سے پانی یا بجلی کا نظام متاثر ہو تو اسے بحال کرنا۔
حالیہ سیلابوں میں اس تنظیم کے پمپنگ عملے نے متعدد ڈیموں سے پانی باہر نکالا کیوں کہ دوسری صورت میں وہ ٹوٹ سکتے تھے۔
جرمنی میں رضاکارانہ سروس سب سے اہم امدادی شعبہ ہے۔ لاکھوں افراد رضاکارانہ امداد کی تنظیموں مثلاً آربائٹر زماریٹر بنڈ (ASB) سے جڑے ہوئے ہیں، جو خیراتی اور امدادی تنظیم ہے۔ جرمن ریڈ کراس اور جرمن لائف سیونگ اسیوسی ایشن کے علاوہ چرچ سے تعلق رکھنے والی متعدد ہیومینیٹیرین تنظیمیں بھی ایسے امدادی کاموں میں پیش پیش ہوتی ہیں۔
جرمنی کی آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑی ریاست نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں چار سو رضاکار فائر بریگیڈ کے شعبے میں ریاست کے آتش زدگی کے انسداد کے ڈھانچے کا حصہ ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں سماجی تحفظ کے مختلف شعبوں سے سترہ لاکھ سے زائد رضاکار وابستہ ہیں۔
سیلاب کے پانی کی سطح کم ہوتی جا رہی ہے لیکن مصیبت میں ابھی کمی نہیں آئی۔ بپھرے دریاؤں کے کناروں پر برباد ہونے والے قصبات میں مقامی لوگوں نے سیلاب کے بعد کی صورت حال سے نمٹنا شروع کر دیا ہے۔ انہیں بے پناہ کیچڑ اور کوڑاکرکٹ کے ڈھیروں کا سامنا ہے۔
جرمنی میں سرکاری اور غیرسرکاری تنظیمیں مجموعی طور پر جرمن سرزمین کے 99 فیصد تک رسائی رکھتی ہیں۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ ہنگامی امداد اور قدرتی آفات جیسے امور میں وفاقی سطح پر مضبوط ردعمل اور فعال کارروائی کا نظام ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ قدرتی آفات کی صورت میں ٹی وی، ریڈیو اور انٹرنیٹ کے ذریعے انتباہ کی بجائے ماضی کی طرح سائرن کے استعمال کا بھی ضروری ہے۔
جرمنی میں کئی اہم عمارتوں پر یہ سائرن نصب ہیں اور حالیہ کچھ عرصے میں یہ کہا جاتا رہا ہے کہ اب ان کی ضرورت نہیں، تاہم حالیہ سیلابوں نے ان کو اہم مرتبہ پھر کارآمد بنا دیا ہے۔
ماہرین کے مطابق قدرتی آفات سے تحفظ کے لیے پیشگی انتباہی نظام کی بھی ضرورت ہے، تاکہ جانی اور مالی نقصان کو کم تر کیا جا سکے۔