جرمنی (جیوڈیسک) اعلیٰ تعلیم کے لیے نوجوانوں کے لیے جرمنی ایک پسندیدہ ملک رہا ہے۔ لیکن اب یونیورسٹیوں میں فیس لاگو کرنے کے رجحان پر غیرملکی طلبا میں تشویش بڑھ رہی ہے۔
بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی طلبا کے تعلیمی اخراجات میں اضافے کے باعث دیگر ممالک کے نوجوان جرمنی کا رخ کرنے سے گریزکر رہے ہیں، جو کہ ایک کثیرالثقافتی معاشرے کی تشکیل کے منافی ہے۔
دو مختلف ادبی اداروں کی حالیہ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بین الاقوامی طلبا کے لیے ان ممالک کے علاوہ جہاں انگریزی بولی جاتی ہے جرمنی مقبول ترین ملک کے طور پر ابھرا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہاں مفت اور معیاری اعلیٰ تعلیم ہے۔ لیکن ایک مسئلہ یہ ہے کہ غیرملکی طلبا میں جرمن یونیورسٹیوں کی مقبولیت سے متعلق جو اعدادوشمار سامنے آئے وہ سن دو ہزار سولہ یا اس سے پہلے کے ہیں اور صورتحال اب بدل رہی ہے۔
جرمنی میں کُل سولہ ریاستیں ہیں، جو اپنی یونیورسٹیوں کے فیصلے خود کرتی ہیں۔ غیرملکی طلبا کو داخلے کے وقت اپنے بینک اکائونٹ میں اپنے سالانہ اخراجات کے لیے 8640 یورو دکھانے ہوتے ہیں لیکن یونیورسٹی کی تعلیم تمام طلبا کے لیے مفت ہوتی ہے۔ اس میں پہلی نمایاں تبدیلی سن دوہزار سترہ میں ریاست باڈن وورٹمبرگ نے کی۔
جرمنی کی اس جنوب مغربی ریاست نے فیصلہ کیا کہ یورپی یونین سے باہر کے طلبا کے لیے پندرہ سو یورو فی سیمسٹر فیس لگا دی جائے گی۔ تب سے وہاں قائم سات یونیورسٹیوں میں غیرملکی طلبا کی تعداد میں کمی دیکھی گئی ہے۔ بون یونیوسٹی سے منسلک ڈاکٹر ورون سیلن مُورگیان کہتے ہیں کہ اس طرح کے فیصلے سے شاید امریکا جیسے ترقی یافتہ ممالک کے طلبا کو اتنا فرق نہیں پڑتا لیکن ترقی پذیر ممالک کے طلبا کے لیے بھاری فیسیں بھرنا مشکل ہوجاتا ہے۔
بظاہر ہوا بھی یہی۔ ریاست باڈن وورٹمبرگ کے فیصلے کا بڑا نشانہ ایشیا اور افریقہ کے طلبا بنے اور یونیوسٹوں میں ان کی تعداد میں نمایاں کمی ہوئی۔ جس یونیورسٹی میں افریقہ سے ڈیڑھ سو طلبا تھے، فیس بڑھنے کے بعد وہاں محض بائیس نئے طلبا نے داخلہ لیا۔
لیکن یہ منفی اثرات ہر یونیوسٹی پر نہیں پڑے۔ مثلاً یونیورسٹی آف فرائیبرگ کا کہنا ہے کہ فیس لاگو کرنے کے بعد اس کے غیر ملکی طلبا کی تعداد کم ہونے کی بجائے اس میں سو فیصد سے بھی زیادہ کا اضافہ ہوا اور ایشیائی اور افریقی نوجوانوں کی تعداد پر بھی کوئی خاص فرق نہ پڑا۔
شاید یہی وجہ ہے اب جرمنی میں دوسری ریاستیں بھی غیرملکی نوجوانوں کے لیے فیس لاگو کرنے پر غور کر رہی ہیں، جن میں نارتھ رائن ویسٹفیلیا بھی شامل ہے۔ یونیورسٹی آف کولون کی پریس آفیسر فرائیڈا برگ کہتی ہیں کہ ”جب قیمتیں بڑھتی ہیں تو ڈمانڈ کم ہوتی ہے۔ لیکن جب ہم ایشیا اور افریقہ سے آنے والے طلبا کی بات کرتے ہیں توہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہم غریب بچوں کی بات نہیں کررہے بلکہ یہاں وہ بچے آتے ہیں جن کا تعلق متوسط یا اونچے طبقات سے ہوتا ہے۔‘‘
لیکن ایسے میں پاکستان جیسے ممالک کے وہ طلبا کہاں جائیں جن کے ماں باپ کے پاس انہیں اعلیٰ تعلیم کے لیے باہر بھیجنے کے پیسے نہیں؟ ہو سکتا ہے کہ جرمنی میں تعلیم آہستہ آہستہ مہنگی ہوتی جائے لیکن یہ اتنا آسان بھی نہیں ہوگا کیونکہ یہاں روایتی طور پر مفت تعلیم کو بنیادی حق کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔