جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمنی سے گزشتہ برس مجموعی طور پر گیارہ ہزار سے زائد غیر ملکیوں کو ہمیشہ کے لیے ملک بدر کر دیا گیا۔ یہ تعداد ایک سال پہلے کے مقابلے میں پچاس فیصد زیادہ تھی۔ ان میں مستقل رہائشی پرمٹ کے حامل غیر ملکی بھی شامل تھے۔
ان اعداد و شمار کی دو مختلف ذرائع سے تصدیق بھی ہو گئی ہے۔ ان میں سے ایک شمالی جرمن شہر اوسنابروک سے شائع ہونے والا ایک اخبار ہے، جس نے یہ خبر بدھ بارہ اگست کو شائع کی تھی۔ دوسرا ذریعہ خود برلن میں وفاقی جرمن حکومت ہے، جس نے ان حقائق کی ملکی پارلیمان کے ایوان زیریں میں بائیں بازو کی سیاسی جماعت ‘دی لِنکے‘ کے حزب کی طرف سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں تصدیق کر دی۔
جرمن وزارت داخلہ کے مطابق 2019ء میں جرمنی سے مجموعی طور پر 11081 غیر ملکیوں کو اس طرح ملک بدر کیا گیا کہ اب وہ دوبارہ جرمنی میں داخل نہیں ہو سکتے۔ یہ تعداد 2018ء کے مقابلے میں 50 فیصد زیادہ تھی۔ دو سال قبل یورپی یونین کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک جرمنی سے کُل 7408 غیر ملکیوں کو ملک بدر کر کے ان کے آبائی ممالک میں بھیجا گیا تھا۔
جرمن قوانین کی رو سے ہر ایسے غیر ملکی کو، جسے عوامی سلامتی اور نظم و ضبط کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہو اور چاہے اس کے پاس جرمنی میں مستقل قیام کا رہائشی پرمٹ بھی ہو، جرمنی بدر کیا جا سکتا ہے۔ ایسے غیر ملکیوں کو جرمنی سے جبراﹰ ان کے آبائی ممالک میں بھیج دیا جاتا ہے۔
گزشتہ برس جرمنی سے جن غیر ملکیوں کو حکام نے ملک بدر کیا، ان میں ایسے بھی تھے، جو تارکین وطن یا پناہ کے متلاشی تھے، یا جن کی درخواستیں ابھی التوا میں تھیں اور ایسے بھی جنہیں اس ملک میں مستقل قیام کے پرمٹ بھی جاری کیے جا چکے تھے۔
ان غیر ملکیوں میں سب سے زیادہ تعداد یوکرائن، البانیہ اور سربیا کے شہریوں کی تھی۔ 2019ء میں جرمنی سے یوکرائن کے 1252، البانیہ کے 1220 اور سربیا کے 828 شہریوں کو ملک بدر کیا گیا۔ یہ سارے ہی غیر ملکی یورپی یونین سے باہر مگر صرف مختلف یورپی ریاستوں کے شہری نہیں تھے۔ ان میں بہت بڑی تعداد میں مختلف افریقی ممالک، عرب ریاستوں اور ایشیا میں پاکستان اور افغانستان جیسے ممالک کے بہت سے شہری بھی شامل تھے۔
جرمن وزارت داخلہ کے مطابق پچھلے سال جن تقریباﹰ گیارہ ہزار ایک سو غیر ملکیوں کو جرمنی بدر کیا گیا، ان کی سب سے بڑی تعداد جنوبی صوبے باڈن ورٹمبرگ میں رہائش پذیر تھی۔ باڈن ورٹمبرگ جرمنی کا وہ صوبہ ہے، جہاں غیر ملکیوں سے متعلقہ امور کے نگران صوبائی محکمے کی طرف سے سب سے زیادہ سختی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔
جرمنی میں برسر روزگار غیر ملکیوں میں سے سب سے زیادہ افراد کا تعلق ترکی سے ہے۔ ایسے ترک باشندوں کی تعداد 5 لاکھ 47 ہزار بنتی ہے۔
اس لیے کہ وہاں امن عامہ کے لیے خطرہ بن جانے والے کسی بھی غیر ملکی کی موجودگی کو برداشت کرنے کا رجحان کم ہے۔ اس جنوب مغربی جرمن صوبے سے 2019ء میں 3540 غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا گیا۔ اس کے بعد دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ نارتھ رائن ویسٹ فیلیا رہا، جہاں سے حکام نے 1762 غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا۔ جنوبی صوبے باویریا سے پچھلے سال ایسے 1376 غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا گیا۔
جرمنی سے کسی بھی غیر ملکی کو اس کی ملک میں موجودگی کی قانونی وجوہات اور عرصے سے قطع نظر اس وقت ملک بدر کیا جا سکتا ہے، جب وہ عوامی سطح پر سکیورٹی اور امن کے لیے خطرہ بن جائے۔
عملاﹰ ایسا کئی مختلف عوامل کی بنا پر ممکن ہے۔ مثال کے طور پر کوئی غیر ملکی کسی بہت بڑے اور سنگین جرم کا ارتکاب کرے، منشیات وغیر کی اسمگلنگ اور تجارت میں ملوث پایا جائے، اس نے انسانوں کی اسمگلنگ میں کوئی کردار ادا کیا ہو یا پھر وہ کسی دہشت گرد یا عسکریت پسند گروپ کا رکن ہو یا رہا ہو۔
وفاقی جرمن ریاست باڈن ورٹمبرگ سے سن 2017 کے اختتام تک ساڑھے پچیس ہزار غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا جانا تھا۔ ان میں 1803 پاکستانی شہری بھی شامل ہیں۔
ایسے غیر ملکیوں کو قانوناﹰ پہلے تو یہ باقاعدہ حکم دیا جاتا ہے کہ وہ جرمنی سے واپس اپنے آبائی ممالک میں چلے جائیں۔ پھر اگر وہ ایسا نہ کریں اور عوامی جان و مال کے لیے خطرہ بن جانے کے باوجود ملک میں موجود رہیں، تو انہیں زبردستی ملک بدر کر دیا جاتا یے۔
جرمن وزارت داخلہ کے مطابق اس سال کی پہلی ششماہی کے دوران جرمنی سے کُل 3369 غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا گیا۔ یہ تعداد ایک سال پہلے کے ابتدائی چھ ماہ کے مقابلے میں اس لیے بہت کم رہی کہ کورونا وائرس کی وبا، لاک ڈاؤن اور طبی سلامتی کی وجوہات کے پیش نظر ایسی ملک بدریاں یا تو روک دی تھیں یا بہت ہی کم کر دی تھیں۔
اخبار ‘نوئے اوسنابروکر سائٹنگ‘ کی رپورٹوں کے مطابق جرمنی میں اس وقت تقریباﹰ 30 ہزار غیر ملکی ایسے ہیں، جن کے نام حتمی طور پر ملک بدر کیے جانے والے افراد کی قانونی فہرست میں شامل ہیں۔ ان میں ایسے غیر ملکی بھی شامل ہیں، جنہیں خود بخود جرمنی سے چلے جانے کے لیے کہا جا چکا ہے اور ایسے بھی جو اپنے رجسٹرڈ رہائشی پتوں سے اس لیے غائب ہو چکے ہیں کہ انہیں پکڑ کر زبردستی ملک بدر نہ کر دیا جائے۔