جرمنی (جیوڈیسک) جرمن پارلیمان نے انتہا پسندانہ حملوں کی روک تھام کے لیے نئے سکیورٹی اقدامات کی حمایت کے ساتھ چہرے کے پردے پر پابندی عائد کرنے کے ایک مجوزہ قانون کی منظوری بھی دے دی ہے۔ اس پابندی کا اطلاق صرف سرکاری ملازمین پر ہو گا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے جرمن حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ جمعرات کو رات گئے ایک پارلیمانی نشست میں ممبران نے نئے تجویز کردہ سکیورٹی اقدامات کی حمایت کر دی ہے۔ ساتھ ہی ایوان زیریں نے خواتین سرکاری ملازمین اور فوجی اہلکاروں کے چہرے کے مکمل پردہ کرنے پر پابندی کے ایک مجوزہ قانون کی منظوری بھی دے دی ہے۔
تاہم مکمل نقاب پر اس مجوزہ جزوی پابندی کا اطلاق عوامی مقامات پر نہیں ہو گا اور وہاں مسلم خواتین چہرے کا مکمل پردہ کرنے کی اہل ہی رہیں گی۔ جرمنی میں دائیں بازو کی جماعتوں کا اصرار ہے کہ فرانس کی طرح جرمنی میں بھی عوامی مقامات پر مکمل پردے پر پابندی عائد کر دی جانا چاہیے۔
جرمنی کے حکمران اتحاد کے ایک بیان کے مطابق مذہبی یا نظریاتی بنیادوں پر چہرے کا مکمل پردہ کرنا دراصل سرکاری عہدیداروں کے غیرجانبدارانہ حلیے کے خلاف ہے۔ اس قانون میں سکیورٹی چیک کی خاطر پردہ کرنے والی مسلم خواتین کو متعلقہ حکام کو اپنا چہرہ بھی دکھانا ہو گا۔
تاہم اس قانون کو حتمی شکل دینے سے قبل اس کی جرمن ایوان بالا ’بنڈس راٹ‘ سے منظوری ملنا ابھی باقی ہے۔ جرمنی میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے نتیجے میں حکومت نئے سکیورٹی اقدامات کو بھی متعارف کرانا چاہتی ہے۔
مقامی میڈیا کے مطابق خواتین کے مکمل چہرے پر پابندی سے متعلق مجوزہ قانون کے تحت الیکشن ، عدالتی اور فوجی اہلکار خواتین کے علاوہ دیگر سرکاری ملازمین کو اس وقت اپنا مکمل چہرہ چھپانے کی اجازت نہیں ہو گی، جب وہ اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہوں۔
اس مجوزہ قانون کے مسودے کے مطابق ریاست کی ذمہ داری ہے کہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں کسی مذہبی یا نظریاتی حوالے یا علامت سے ماورا اور بے نیاز رہے۔
اگر جرمنی میں پردے کے حوالے سے بنائے گئے ان مجوزہ قوانین کو حتمی منظوری مل جاتی ہے تو وہ یورپ کا ایسا پانچواں ملک بن جائے گا، جہاں اس طرح کی پابندی عائد ہو جائے گی۔ قبل ازیں فرانس، بیلجیم، ہالینڈ اور بلغاریہ میں ایسے قوانین متعارف کرائے جا چکے ہیں، جن میں یا تو نقاب پر مکمل پابندی عائد ہے یا جزوی۔ آسٹریا اور ناورے کی حکومتیں بھی اس طرح کے قوانین بنانے کے بارے میں غور کر رہی ہیں۔