جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمنی میں وفاقی الیکشن میں تین ماہ سے بھی کم عرصہ باقی رہ گیا ہے۔ اس مرتبہ بذریعہ ڈاک ووٹنگ کا غیر معمولی استعمال دیکھا جائے گا جبکہ سیاستدانوں کے خلاف ہیکرز کے سائبر حملوں میں اضافے کی توقع بھی کی جارہی ہے۔
چھبیس ستمبر 2021ء کو جرمن وفاقی پارلیمان کے لیے منعقد ہونے والے عام انتخابات سے قبل جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے داخلی اور خارجی سطح پر سائبر حملوں کے خطرات سے خبردار کیا ہے۔ برلن میں ایک پریس کانفرنس کے دوران جرمنی میں عام انتخابات کے انتظامات سنبھالنے والے وفاقی ادارے ‘بنڈیس وال لائٹر‘ کے سربراہان، داخلی انٹیلیجینس ایجنسی (بی ایف وی) ، سائبر سکیورٹی ایجنسی (بی ایس آئی) ، اور وزیر داخلہ زیہوفر نے جرمنی کے انتخابات کے دوران سکیورٹی خطرات کے بارے میں بتایا اور بیان کیا کہ حکام ان خطرات کو روکنے کے لیے کون کون سے منصوبے تیار کررہے ہیں۔
زیہوفر نے کہا، ”ہمارے حکام یہ یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے کہ وفاقی پارلیمان کے انتخابات منظم اور محفوظ طریقے سے انجام دیے جائیں۔‘‘
پریس کانفرس کے دوران وفاقی ریٹرننگ آفیسر جیورج تھیل نے دائیں بازو کی سیاسی جماعت اے ایف ڈی کی طرف سے بذریعہ ڈاک ووٹ ڈالنے والے وٹروں میں ممکنہ دھوکہ دہی کے دعووں کو مسترد کر دیا۔
کورونا وائرس کی وبا کے سبب امریکا کی طرح جرمنی میں بھی بذریعہ پوسٹ ووٹ ڈالنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ جرمنی میں رواں سال 2021ء کو ‘سپر الیکشن برس‘ قرار دیا جا رہا ہے، کیونکہ اس سال چھ صوبائی انتخابات کے ساتھ ساتھ وفاقی انتخابات بھی منعقد ہو رہے ہیں۔
اس دوران دائیں بازوں کی سیاسی جماعت اے ایف ڈی (متبادل برائے جرمنی) سے منسلک رکن وفاقی پارلیمان عام انتخابات میں ہیرا پھیری کے امکان کے بارے میں، ثبوت فراہم کیے بغیر، کھل کر قیاس آرائی کر رہے ہیں۔ اے ایف ڈی کے ایک رکن پارلیمان اشٹیفان برانڈر کے بقول، ” چونکہ ملک بھر کے تمام ٹاؤن ہالوں میں میل اِن بیلٹ باکس ہفتوں تک پڑے رہتے ہیں لہٰذا کسی کو نہیں معلوم کہ ان ڈبوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔‘‘
وفاقی ریٹرننگ آفیسر جیورج تھیل نے پریس کانفرس کے دوران اِن دعووں کو غیر حقیقی قرار دیتے ہوئے کہا، ”ہمارے پاس سن 1957 سے بذریعہ ڈاک ووٹ دیے جارہے ہیں اور ان تمام سالوں کے دوران آج تک وسیع پیمانے پر دھاندلی کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ پوسٹل ووٹوں کے بیلٹ بکسوں کا بالکل ویسے ہی خیال رکھا جاتا ہے جیسے پولنگ بوتھ میں موجود بیلٹ بکسوں کا۔
جرمنی میں بذریعہ ڈاک ووٹ ارسال کرنے کے لیے پہلے متعلقہ ادارے میں درخواست جمع کرائی جاتی ہے۔ ووٹر رجسٹریشن لسٹ سے تصدیق کے بعد ووٹر کے رجسٹرڈ پتے پر ووٹ کی پرچی ارسال کی جاتی ہے۔ جب حکام کو ووٹ کی پرچی کے ساتھ بند لفافہ واپس موصول ہوتا ہے تو اسے ایک محفوظ مقام پر الیکشن کے روز تک ایک بیلٹ باکس کے اندر دال کر لاک کر دیا جاتا ہے۔ ان بیلٹ باکسز پر ہر وقت کڑی نظر رکھی جاتی ہے تاکہ کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ کو بروقت روکا جاسکے۔ بعدازاں الیکشن کے دن شام چھ بجے ووٹنگ کا مقررہ وقت ختم ہونے کے بعد انتخابی کمیٹی اور مبصرین کے سامنے ووٹوں کی گنتی کی جاتی ہے۔
تھیل نے صحافیوں کو مزید بتایا کہ جرمنی میں آج بھی ووٹوں کی گنتی پرانے طریقے سے کاغذ اور پینسل کے ساتھ کی جاتی ہے۔ امریکا کے برعکس جرمنی میں ووٹنگ مشین کا استعمال نہیں کیا جاتا۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ہر شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ووٹوں کی گنتی کے دوران پولنگ اسٹیشن میں موجود رہ کر گنتی کا عمل خود دیکھ سکے۔
امریکا اور جرمنی میں پوسٹل ووٹنگ کے نظام پر ایک ہی نوعیت کے الزامات لگائے جا رہے ہیں لیکن دونوں ممالک میں ووٹنگ رجسٹریشن کا طریقہ کار مختلف ہے۔
وفاقی ریٹرننگ آفیسر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ جرمنی میں ووٹرز کو اُن کے رہائشی پتے کی بنیاد پر رجسٹر کیا جاتا ہے جبکہ امریکا میں ووٹ دینے کے لیے ووٹرز خود رجسٹر یشن کرواتے ہیں۔ جرمن شہریوں کا مستقل پتہ اس بات کو یقنی بناتا ہے کہ اُن کا نام ووٹر لسٹ میں خود بخود اندراج کیا جائے۔ اس فرق کا بنیادی مطلب یہ ہے کہ ووٹر لسٹوں کو باقاعدگی سے اپ ڈیٹ کیا جاتا ہے اور اس وجہ سے ووٹر لسٹ میں جعلی افراد کو شامل کرنا بہت مشکل بن جاتا ہے۔
حکام کے مطابق جرمن جمہوریت کی سالمیت کو موجودہ وقت میں سب سے زیادہ خطرہ انٹرنیٹ کے ذریعے ہوسکتا ہے۔ خاص طور پر غیرملکی ریاستی حملہ آور جو پارلیمنٹ کے نظام کو ہیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جیسے سن 2015 میں ہوا تھا۔ رواں برس مارچ میں کئی جرمن رکن پارلیمان، وفاقی اور صوبائی، کو اپنے نجی ای میل اکاؤنٹس میں ‘فشنگ ای میلز‘ موصول ہوئی تھیں، تاکہ حساس معلومات تک رسائی حاصل کی جاسکے۔
جرمنی کی داخلی انٹیلیجنس ایجنسی کے سربراہ تھومان ہالڈن وانگ نے روس کا براہ راست نام لیے بغیر بتایا کہ ‘گھوسٹ رائٹر‘ نامی گروپ کی جانب سے وفاقی پارلیمان کے ارکان پر ایک سو سے زائد سائبر حملے کیے گئے تھے۔ ان میں سے کچھ حملے کامیاب ہوگئے لیکن زیادہ تر ارکان پارلیمان نے محتاط رہتے ہوئے یہ مشکوک ای میلز کھولنے سے گریز کیا تھا۔
جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے پریس کانفرنس کے دوران اس بات سے بھی خبردار کیا کہ سائبر حملوں کے خطرات صرف ماسکو، چین، یا ایران جیسے دیگر غیرملکی عناصر سے نہیں بلکہ مقامی سطح پر بھی ہیں اور ان میں تفریق کرنا اکثر مشکل ہو جاتا ہے۔ زیہوفر کے بقول، ”ہمیں اس معاملے کو بہت سنجیدگی سے لینا چاہیے لیکن ہمارے ملک کے اندر جو ہورہا ہے اس کو بھی ہرگز نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
جرمنی کی اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے حکومت پر سائبر حملوں کے ممکنہ خطرات کے خلاف کارروائی میں سست روی کا الزام عائد کیا جارہا ہے۔ گرین پارٹی کی سکیورٹی پالیسی کے ترجمان کونسٹانٹن فان نوٹز کا کہنا ہے کہ وزیر داخلہ بہت زیادہ تاخیر کے بعد اِن خطرات کا اعتراف کر رہے ہیں، لیکن یہ کم از کم درست سمت کی جانب ایک قدم ہے۔‘‘