میونخ (جیوڈیسک) اپنے چار روزہ دورہ جرمنی کے پہلے روز بان کی مون نے برلن میں چانسلر مر کل سے ملاقات کی۔ وہ رواں اختتام ہفتہ پر میونخ میں سکیورٹی کانفرنس میں شرکت کریں گے جہاں وہ روسی وزیرخارجہ سیرگئی لاوروف اور امریکی وزیر خارجہ جان کیری سے بھی ملیں گے۔
برلن میں چانسلر مرکل کے ساتھ اپنی مشترکہ پریس کانفرنس میں بان کی مون نے زور دیا کہ وسطی افریقی جمہوریہ میں مسلم اور مسیحیوں کے درمیان جاری خونریزی کے خاتمے کے لیے اقوام متحدہ کے امن مشن کو مزید فوجی دستے درکار ہیں تاہم انہوں نے یہ نہیں کہا کہ آیا اس سلسلے میں جرمنی ممکنہ طور پر اپنے فوجی بھیجنے پر آمادہ ہے یا نہیں۔
تاہم مرکل نے کہا کہ جرمنی اس معاملے میں بہت واضح پوزیشن رکھتا ہے کہ وہ جنگی کارروائیوں کے لیے فوجی کہیں نہیں بھیجے گا۔ بان کی مون نے کہا کہ جرمنی کو جو زبردست اور صحت مند معیشت کا حامل ہے، ایک معاشی طاقت ہے، بین الاقوامی سطح پر قائدانہ سیاسی کردار ادا کرنا چاہیے، میں اسی لیے یہاں آیا ہوں۔
انہوں نے چانسلر میرکل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اسی لیے ان سے کہا ہے کہ وہ شام، وسطی افریقہ اور دیگر جگہوں پر قائدانہ کردار ادا کریں۔ ہمیں ان مسائل سے نمٹنا ہو گا تا کہ ہم ایک بہتر دنیا قائم کر سکیں۔ جرمن چانسلر نے اس موقع پر کہا کہ فوجیوں کی بجائے جرمنی مشوروں اور امداد دینے میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔ فوجی عزم کے کم یا زیادہ ہونے کی بات نہیں ہے۔
بڑے ممالک جیسے جرمنی دیگر متعدد طریقوں سے کام کر سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آپ کو سیاسی حل بھی درکار ہوتا ہے۔
ترقی کا عنصر بھی ضروری ہوتا ہے، حکومتی ڈھانچے کی تعمیر بھی اہم ہوتی ہے اور کچھ مواقع پر فوجی عنصر کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ جرمنی کیس کی نوعیت کے اعتبار سے فیصلہ کرتا ہے کہ کہاں کس شے کی زیادہ ضرورت ہے۔