جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمن حکومت نے ایک ایسی اسلام پسند تنظیم پر پابندی لگا دی ہے، جس کے بارے میں شبہ ہے کہ وہ مبینہ طور پر بیرونی ممالک میں دہشت گرد گروپوں بشمول الشباب کی مالی معاونت کرتی ہے۔
جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے شہر ڈسلڈورف میں قائم تنظیم انصار انٹرنیشنل پر اس شبے میں پابندی عائد کیے جانے کا اعلان کیا کہ یہ تنظیم صومالیہ میں الشباب اور فلسطینی علاقوں میں حماس جیسے ‘دہشت گرد گروپوں‘ کی مالی اعانت کرتی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ کے ترجمان اسٹیو آلٹرنے ایک ٹویٹ میں لکھا، ”یہ نیٹ ورک دنیا بھر میں دہشت گردی کی مالی اعانت کرتا ہے۔‘‘ اسٹیو آلٹر نے وزیر داخلہ زیہوفر کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ”اگر آپ دہشت گردی کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں، تو آپ کو اس کے مالی ذرائع کو نچوڑ کر خشک کر دینا ہو گا۔‘‘
جرمنی کے مغربی صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے شہر ڈسلڈورف میں قائم اس مسلم انتہا پسند تنظیم پر الزام ہے کہ وہ جن بیرون ملک دہشت گرد گروپوں کو رقوم بھیجتی ہے، ان میں شام میں سرگرم النصرہ فرنٹ، فلسطینی علاقوں میں حماس اور صومالیہ میں الشباب بھی شامل ہیں۔
جرمنی کی 16 میں سے 10 وفاقی ریاستوں رائن لینڈ پلاٹینیٹ، باڈن ورٹمبرگ، باویریا، برلن، برانڈن برگ، ہیمبرگ، نارتھ رائن ویسٹ فیلیا، لوئر سیکسنی، شلیسوگ ہولشٹائن اور ہیسے میں بدھ کی صبح اس سلسلے میں پولیس نے چھاپے بھی مارے۔ یہ کارروائی جن 90 افراد کے حوالے سے کی گئی، ان میں سے نصف کا تعلق نارتھ رائن ویسٹ فیلیا سے ہی ہے۔ ڈسلڈورف اسی جرمن صوبے کا دارالحکومت اور اقتصادی مرکز ہے۔ کالعدم قرار دی گئی تنظیم انصار انٹرنیشنل کی ویب سائٹ پر اس کی انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر سرگرمیوں کے حوالے سے درج ہے کہ یہ تنظیم ‘اندرون اور بیرون ملک محتاج انسانوں کی مدد کرتی ہے اور اس کے منصوبے لبنان، سوڈان اور فلسطینی علاقوں میں جاری ہیں۔
تاہم جرمن وزارت داخلہ کا ماننا ہے کہ کچھ واقعات میں اس تنظیم کی طرف سے ایسے امدادی منصوبوں کے لیے بھی مالی مدد فراہم کی گئی، جو ‘براہ راست دہشت گرد تنظیموں کی سرگرمیوں کے دائرہ کار میں آتے ہیں‘۔ ایک سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ وفاقی وزارت داخلہ اس امر کی قائل ہو چکی ہے کہ انصار انٹرنیشنل کی مشنری سرگرمیاں جرمن آئین کے تقاضوں کے منافی ہیں۔ جرمنی میں اس تنظیم پر پابندی کے لیے سرکاری کارروائی کا آغاز 2019ء میں اس وقت ہوا تھا، جب انصار انٹرنیشنل کے نیٹ ورک کے خلاف وسیع تر چھاپے مارے گئے تھے اور بڑے پیمانے پر مواد قبضے میں لے لیا گیا تھا۔
برلن میں جرمن وزارت داخلہ نے متنبہ کیا ہے کہ انصار انٹرنیشنل کے بیرون ملک قائم کردہ اداروں میں جرمنی سے بچوں کے وہاں بھیجے جانے اور وہاں سلفی انتہا پسندانہ مواد سے ان کی تربیت کے امکانات بھی پائے جاتے ہیں۔ سلفی مسلمانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سخت گیر سنی عقیدے کے حامل اور اسلامی شرعی قوانین کے نفاذ کے حامی ہوتے ہیں، جو اسلامی قوانین والی ریاست کے قیام کے لیے عسکریت پسندی کی بھی حمایت کرتے ہیں۔ کئی دیگر اسلامی فرقوں اور مسلم گروپوں کی طرح وہ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ جس عقیدے پر وہ عمل کرتے ہیں، وہی اسلام کی اصل شکل ہے۔
گزشتہ برس جرمنی کی داخلی انٹیلیجنس ایجنسی نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا تھا کہ 2019 ء میں جرمنی میں سلفی مسلمانوں کی مجموعی تعداد میں واضح اضافہ ہوا تھا۔ اس رپورٹ میں سلفیوں کو ‘مسلم انتہا پسندوں‘ کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ تب تک ملک میں ان کی تعداد 12 ہزار 150 ہو چکی تھی۔ اسی رپورٹ سے یہ انکشاف بھی ہوا تھا کہ جرمنی میں سلفی نظریات کے حامل مسلمانوں کی تعداد 2011 ء کے مقابلے میں تین گنا سے بھی زیادہ ہو چکی ہے اور یہ گروپ جرمنی میں مستحکم ہوتا جا رہا ہے۔