جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) معروف جرمن مؤرخ وولفگانگ بینز کے مطابق جرمنی میں اقلیتیں خوف اور تعصب کے ذریعے ایک کونے میں دھکیلی جا رہی ہیں۔ بینز کے بقول جرمنی کو ایک ’مسیحی یہودی مغربی ملک‘ قرار دینا بھی غلط ہے، جس کا مقصد مسلمانوں سے دوری ہے۔
وولفگانگ بینز کی عمر اس وقت 79 برس ہے اور وہ ماضی میں جرمن دارالحکومت برلن میں سامیت دشمنی کے خلاف قائم تحقیق کے مرکز کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ جرمنی میں اگر معاشرتی تبدیلیوں کا تاریخی جائزہ لیا جائے، تو یورپی یونین کے اس سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں ایک خاص طرح کی ‘لسانی بے ایمانی‘ دیکھنے میں آتی ہے۔
اپنے اس موقف کی وضاحت کرتے ہوئے وولفگانگ بینز نے کہا کہ جرمن معاشرے میں ‘اسلام مخالف‘ اور ‘مسیحی یہودی مغربی ریاست‘ جیسی اصطلاحات اس لیے استعمال میں لائی گئیں کہ سماجی طور پر مسلمانوں کے اثر و رسوخ کو محدود رکھا جا سکے۔
انہوں نے کہا، ’’تاریخی حوالے سے یہ ایک طرح سے بے شرمی کی بات ہے کہ کوئی بھی شخص یہ ثابت کرنے کی کوشش کرے کہ جیسے ماضی میں مسیحیوں اور یہودیوں کے درمیان ریاستی سطح پر کبھی کوئی قدر مشترک رہی ہے۔‘‘
وولفگانگ بینز نے کھل کر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایک مسیحی ریاست کی اکثریتی آبادی کے طور پر تو مسیحیوں نے دو ہزار سال تک یہودیوں کے لیے زندگی کو زیادہ سے زیادہ تکلیف دہ بنانے کی کوشش کی اور اس کے لیے صلیبی جنگوں، یہودیوں کی املاک کو تباہ کرنے، ان کے قتل عام اور ان کے خاص طرح کے حقوق کی نفی کرنے جیسے اقدامات کیے۔‘‘
بڑے احترام کی نظر سے دیکھنے جانے والے اور کئی کتابوں کے مصنف اس جرمن مؤرخ نے زور دے کر کہا کہ موجودہ جرمنی میں دانستہ طور پر سامیت دشمنی اور اسرائیل پر تنقید کو آپس میں گڈ مڈ کر دیا جاتا ہے۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا، ”اگر کوئی سرکردہ جرمن سیاستدان یہ کہے کہ اسرائیل بلاجھجھک فلسطینیوں کے مکمل تباہی کا سبب بننے والی جنگ جاری رکھے ہوئے ہے، تو اس بیان کو سامیت دشمنی کا مظہر کہا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ ‘اسرائیل کی ریاستی حدود میں اپنے حقوق کے حوالے سے تمام شہری عملاﹰ برابر نہیں ہیں‘ یا ‘اسرائیلی حکومت فلسطینی علاقوں پر قبضے اور انہیں اپنے ریاستی علاقے میں ضم کرتے ہوئے پورے خطے میں قیام امن کے حق میں کوئی مثبت قدم نہیں اٹھا رہی‘ تو ایسے کسی بھی بیان کو سامیت دشمن قرار نہیں دیا جا سکتا۔‘‘
وولفگانگ بینز کے مطابق جو لوگ جرمنی میں اسلام پر تنقید کرتے ہیں، وہ ایسا اپنی درپردہ منفی سوچ کی وجہ سے کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ”جو لوگ ہمارے سامنے خود کو ‘اسلام پر تنقید کرنے والے‘ کہہ کر اپنا کھیل کھیلتے ہیں، ان کے ذہن میں بھی مسلمانوں کے خلاف کوئی نہ کوئی سوچ ہوتی ہے۔ حالانکہ ظاہری طور پر ایسے عناصر اپنے ذہنوں میں اسلام کے خلاف کوئی بھی تعصب نہ ہونے کے دعوے کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ وہ تو اسلام کی ایک مذہب کے طور پر مخالفت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ اسلام تو ہے ہی ایسا کہ اس کے خلاف مزاحمت کی جانا چاہیے۔‘
کسی بھی معاشرے میں منفی تبدیلیوں کے مطالعے میں یہ سوال کلیدی اہمیت کا حامل ہوتا ہے کہ اس معاشرے میں مخصوص تعصبات پیدا کیسے ہوئے؟ وولفگانگ بینز کہتے ہیں، ”کسی بھی ایسے معاشرے میں جہاں ایک خاص نسلی، مذہبی یا لسانی گروپ کو سماجی اکثریت حاصل ہو، تعصبات وجود میں آنے کا غیر جانبدارانہ مطالعہ ناگزیر ہو جاتا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا، ”میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ جرمن معاشرے کے ایک حصے کے طور پر خانہ بدوشوں کی سنتی اور روما نسلوں کے باشندوں کو محدود کیوں کیا گیا ہے؟ یہی سوال مسلمانوں، یہودیوں اور دیگر اقلیتوں کے حوالے سے بھی پوچھا جانا چاہیے۔‘‘
وولفگانگ بینز نے زور دے کر کہا کہ اگر کسی معاشرے کا کوئی حصہ مذہبی یا نسلی اقلیتوں کو پسند نہیں کرتا، تو اس کی وجہ خود وہ اقلیتیں نہیں ہوتیں، ”اس ناپسندیدگی کی وجہ اور محرک وہ منفی تصویر ہوتی ہے، جو کوئی بھی انسان اپنے ذہن میں کسی اقلیت کے بارے میں بنا لیتا ہے۔‘‘
عمومی انسانی نفسیات کی وجہ سے اور اپنے ذاتی تجربات کو ہر کسی کے لیے اصول بنا دینے کی شعوری یا لاشعوری خواہش کی وضاحت کرتے ہوئے وولفگانگ بینز نے کہا، ”یہ مثال آپ اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ میں کہوں: آئرلینڈ کے تمام باشندوں کے بال سرخ ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ میں سرخ بالوں والے ایک آئرش باشندے کو جانتا ہوں۔‘‘