جرمنی (جیوڈیسک) جرمنی میں تحفظ آئین کے وفاقی دفتر(بی وی ایف) نے خبردار کیا ہے کہ دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی پسپائی سے غلط اندازے اخذ نہیں کرنے چاہییں۔ اس تنظیم کی جانب سے کسی وقت جرمنی میں بھی حملہ کیا جا سکتا ہے۔
جرمنی میں تحفظ آئین کے وفاقی دفتر کہلانے والی داخلی سلامتی کی نگران خفیہ ایجنسی (بی ایف وی) کے سربراہ تھوماس ہالڈنوانگ نے اخبار ویلٹ ام زونٹاگ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا، ’’ میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے حوالے سے خطرے کی شدت کو کم نہیں کر سکتا۔ یہ دہشت گرد تنظیم یورپ کے لیے بدستور ایک خطرہ ہے اور خاص طور پر اپنی ورچوئیل سائبر خلافت کے حوالے سے، جو حملوں کی ترغیب دیتی ہے۔ اور جو ابھی تک اپنے حامیوں کو حملوں کے لیے تیار کر سکتی ہے۔‘‘
ہالڈنوانگ نے مزید بتایا کہ گزشتہ برس کے دوران جرمنی میں شدت پسند مسلم انتہا پسندوں کی تعداد میں تین سو سے زائد کا اضافہ ہوا ہے،’’جرمنی میں ایسے لوگوں کی تعداد تقریباً بائیس سو سے زائد ہے، جن میں مسلم دہشت گردی کی جانب جھکاؤ پایا جاتا ہے۔ ہمیں کافی حد تک یقین ہے کہ یہ کسی بھی دہشت گردانہ کارروائی میں شریک ہو سکتے ہیں یا پھر کسی ایسی ہی کارروائی میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔‘‘
داخلی سلامتی کی نگرانی خیفہ ایجنسی (بی ایف وی) کے سربراہ نے بتایا کہ ان تمام مشتبہ افراد کی چوبیس گھنٹے نگرانی ممکن نہیں ہے،’’ایک ایسے شخص کی نگرانی کے لیے کم از کم چالیس اہلکار چاہیے ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے ہم نے صرف ان افراد پر توجہ دی ہے، جنہیں بہت ہی خطرناک قرار دیا گیا ہے۔‘‘
جرمن شہر لائپزگ کی پولیس نے بائیس سالہ شامی مہاجر جابر البکر کو دو دن کی تلاش کے بعد گرفتار کر لیا تھا۔ اس پر الزام تھا کہ وہ برلن کے ہوائی اڈے کو نشانہ بنانا چاہتا تھا۔ اس مشتبہ جہادی کے گھر سے دھماکا خیز مواد بھی برآمد ہوا تھا۔ تاہم گرفتاری کے دو دن بعد ہی اس نے دوران حراست خودکشی کر لی تھی۔
تھوماس ہالڈنوانگ نے اس موقع پر اس منصوبے کا دفاع کیا ہے، جس میں پیغام رسانی کے یا میسنجنگ سروس کی نگرانی کی بات کی گئی ہے، ’’ ٹیلیفون پر ہم سطحی طور پر ہونے والے لڑائی جھگڑوں کی نگرانی کرتے ہیں۔ تاہم اصل معاملہ وہ فریب ہے، جو اکثر ہماری نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔‘‘
بی ایف وی کے سربراہ کے مطابق اسلامک اسٹیٹ کا ساتھ دینے والے افراد اور خاص طور پر ان کے بچوں کے جرمنی واپس آنے کے بعد ادارے کی پریشانی میں اضافہ ہوا ہے اور یہ سوال کھڑا ہو گیا ہے کہ کیا یہاں ایک نئی دہشت گرد نسل تیار ہو رہی ہے؟