جرمن (اصل میڈیا ڈیسک) جرمن شہر بوخم کے ماہر جرمیات کی ریسرچ سے پتا چلا ہے کہ اس ملک میں بھی نسلی تعصب کے ساتھ ساتھ پولیس کے تشدد کا رجحان پایا جاتا ہے.
جرمن شہر بوخم سے تعلق رکھنے والے سماجی محققین کی ٹیم نے کئی برسوں تحقیق جاری رکھنے کے بعد مرتب کی جانے والی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ جرمنی میں بھی نسلی تعصب پر مبنی رویہ پایا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پولیس اہلکاروں کے مظالم اور ظالمانہ سلوک سے قانون کی حکمرانی کے احترام میں کمی واقع ہوتی ہے اور لوگوں کا قانون کی حکمرانی پر اعتماد بھی متزلزل ہو جاتا ہے۔ رپورٹ کے مرتبین نے کئی متاثرہ افراد کے انٹرویوز بھی اس اہم رپورٹ میں شامل کیے ہیں۔
رپورٹ میں اس امر پر زور دیا گیا ہے کہ پولیس پر اعتماد بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے آزاد مبصرین کی مدد حاصل کرنے کی تجویز دی گئی کیونکہ پولیس کے رویے کا کنٹرول بیرونی طریقہٴ کار سے ہی ممکن ہے تا کہ پولیس کے جبر سے متاثر ہونے والے افراد کو مناسب امداد اور سہارے مہیا ہو سکیں۔ دوسری جانب پولیس کی ٹریڈ یونین سے وابستہ مشیل مارٹینز کا کہنا ہے کہ ایسے معاملات میں بیرونی اقدامات اور اعتماد بحالی کی کوششیں کارآمد ہونے کے امکانات کم ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ایک پولیس اہکار کے طور پر وہ قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں کیونکہ یہ ایک حکومت کی نگرانی میں چلنے والا ادارہ ہے۔ مارٹینز کا کہنا ہے کہ کام کے مقامات پر کنٹرول کے ضوابط بھی لاگو ہوتے ہیں۔ یہ بھی انہوں نے بتایا کہ کسی پولیس اہلکار کے خلاف شکایت درج کرانا ممکن ہے۔ ان کا کہنا تھا ریاستی جبر یعنی پولیس کارروائی کے خلاف دفاع کا ہر شخص کو حق حاصل ہے۔
ریسرچر نے واضح کیا کہ جرمنی کی پولیس کو مجموعی طور پر نسلی تعصب کا شکار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ پولیس اہکار کا رویہ دانستہ تعصبانہ ہو سکتا ہے۔ اس تعصب کا شکار ہونے والے عبد الرحمٰن کا کہنا ہے کہ پولیس میں تعصب رکھنے والے اہلکار بہت سارے ہیں اور وہ اس کا اظہار وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں۔ اس تناظر میں عبد الرحمٰن کا مزید کہنا ہے کہ یہ ممکن نہیں کہ ظاہری صورت کو تبدیل کر لیا جائے یعنی جلد کی رنگت اور بیرونی صورت، لیکن ہر صورت میں پولیس کے رویے سے بدگمانی کا پیدا ہونا ممکن ہے۔ پولیس ٹریڈ یونین سے منسلک اہلکار مشیل مارٹنز نے اعتراف کیا کہ نسلی تعصب جیسے حساس معاملے کے تناظر میں پولیس میں بہتری کی گنجائش یقینی طور پر موجود ہے۔
ریسرچ میں بتایا گیا کہ غیر ملکی خاص طور پر پولیس کے سخت اور تذلیل امیز جملوں کا سامنا کرتے ہیں اور وہ اس سے شدید بیزار ہیں۔ اس مناسبت سے ایک لبنانی باشندے عمرایوب کا کہنا ہے کہ انہیں پولیس نے ‘غلیظ غیر ملکی‘ تک قرار دیا۔ ان کی بہن کا کہنا ہے کہ پولیس اہلکار نے اسے یہ بھی کہا کہ وہ اپنے ملک میں نہیں لہذا اس پر یقین کرنا ممکن نہیں۔ لبنانی عمر ایوب کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس جیسے کئی غیر ملکیوں کے ساتھ پولیس جانوروں جیسا سلوک روا رکھ چکی ہے اور یہ انتہائی نامناسب ہے۔ انہوں نے ایک واقعہ بیان کیا کہ رمضان میں وہ اور ان کا سارا خاندان روزہ افطار کر رہے تھے کہ پولیس اہلکار نے گھنٹی بجا کر اسے باہر طلب کیا اور سخت لہجے میں کہا کہ وہ ارد گرد کے ماحول کے امن کو خراب کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں اور پولیس اہلکار زبردستی مکان میں داخل ہونا چاہتا تھا اور اسے روکنے پر صورت حال بگڑتی چلی گئی۔ بظاہر پولیس اہلکار کی آمد کسی قریبی شخص کی شکایت پر عمل میں آئی تھی۔