جرمنی (جیوڈیسک) جرمنی نے افغان پناہ گزینوں کے ایک گروپ کو افغانستان واپس بھیج دیا ہے، واپس بھیجے گئے افراد کی جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد کر دی گئی تھیں۔
بدھ کو 50 افغان پناہ گزینوں کو لے کر ایک جہاز میونخ سے روانہ ہوا، گزشتہ سال سے جرمنی سے ملک بدر کیے جانے والے پناہ گزینوں کو ان کے اپنے اپنے ملکوں کو لے کر جانے والی یہ تیسری پرواز ہے۔ اس اقدام پر ایمنسٹی انٹرنینشل اور دائیں بازو کی جماعتوں نے تنقید کی تھی۔
جرمنی نے گزشتہ سال 80 ہزار کی ریکارڈ تعداد میں ان تارکین وطن کو ملک بدر کیا جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد کر دی گئی تھیں اور عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں کہ 2017ء میں ایسے تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے کیوں کہ چانسلر اینگلا مرکل ستمبر کے انتخابات سے پہلے قدامت پسند ووٹروں کی حمایت دوبارہ حاصل کرنا چاہتی ہیں۔
یورپی یونین کی سب سے بڑی معیشت جرمنی نے گزشتہ 18 ماہ کے دوران دس لاکھ سے زائد تارکین وطن کو اپنے ہاں قبول کیا ہے، ان میں زیادہ تعداد ان افراد کی ہے جو شام کی جنگ کی وجہ سے اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
تاہم جرمنی کا موقف ہے کہ وہ کابل اور افغانستان کے دوسرے علاقوں میں افغان باشندوں کو واپس بھیجا جا سکتا ہے، جہاں تعینات نیٹو فورسز میں جرمن فوجی بھی شامل ہیں۔
چانسلر مرکل ستمبر میں ہونے والے انتخابات میں ایک بار پھر حصہ لیں گی، انہیں ان لوگوں کی طرف سے مخالفت کا سامنا ہے جنہوں نے 2015ء میں تارکین وطن کے لیے جرمنی کی سرحدوں کو کھولنے کے فیصلے پر تنقید کی تھی۔
ان کی کرسچئین ڈیموکریٹک یونین پارٹی (سی ڈی یو) مزید ایسے تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کے لیے کوشاں ہے، جن کی درخواستوں کو مسترد کر دیا گیا ہے یا وہ غیر ملکی جو کسی جرم کے مرتکب ہوئے ہیں۔