برلن (جیوڈیسک) جرمنی کے شہر برلن میں کرسمس مارکیٹ پر ایک بڑے ٹرک کے ذریعے حملے میں ملوث افراد کی تلاش جاری ہے اور جرمن پولیس کا کہنا ہے کہ اس میں ایک سے زائد افراد شامل ہو سکتے ہیں۔
شدت پسند تنظیم ’داعش‘ نے برلن میں کیے گئے حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا، اس ٹرک حملے میں کم از کم 12 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔
ادھر جرمن پولیس نے برلن حملے کے بعد پیر کی شام جس واحد مشتبہ شخص کو تحویل میں لیا تھا، اُسے رہا کر دیا گیا۔
چیف فیڈرل پراسیکیوٹر آفس کے مطابق مشتبہ پاکستانی شہری کو اس لیے رہا کر دیا گیا ہے کیوں کہ تفتیش کاروں کو اُس کے خلاف کافی شواہد نہیں ملے۔
جرمنی میں پناہ کے متلاشی ایک پاکستانی شخص کو گرفتار کیا گیا تھا، جس کا نام جرمن میڈیا میں نوید بتایا گیا اور وہ گزشتہ سال دسمبر میں جرمنی پہنچا تھا۔ تاہم نوید نے اس مشتبہ حملے میں ملوث ہونے سے انکار کیا تھا۔
جرمن چانسلر اینگلا مرکل نے منگل کو اس مقام کا دورہ کیا جہاں ٹرک حملہ کیا گیا، اُنھوں نے اس مقام پر سفید پھول رکھے اور کہا کہ اس حملے نے اُنھیں ہلا کر رکھا دیا اور وہ بہت ’’افسردہ‘‘ ہیں۔
چانسلر مرکل نے کہا کہ وہ ’’12 افراد جو کل تک ہمارے ساتھ تھے اور کرسمس کی تیاری کر رہے تھے، چھٹیوں کی منصوبہ بندی کر رہے تھے اب ہمارے ساتھ نہیں ہیں۔‘‘
عینی شاہدین کے مطابق معروف کرسمس مارکیٹ سیاحوں اور مقامی لوگوں سے بھری ہوئی تھی کہ 60 کلو میٹر فی گھنٹہ سے زائد رفتار سے چلنے والا ٹرک اُن پر چڑھا دیا گیا، ٹرک پر بھاری سامان لدھا ہوا تھا۔
واضح رہے کہ رواں سال جولائی میں فرانس کے علاقے نیس میں سیاحوں پر ایک تیز رفتار ٹرک سے حملہ کیا گیا جس میں 86 افراد ہلاک اور لگ بھگ 400 زخمی ہو گئے تھے۔
جرمن حکومت نے گزشتہ سال شام سمیت مشرق وسطیٰ اور دیگر ممالک سے آنے والے لگ بھگ آٹھ لاکھ 90 ہزار افراد کو پناہ دی تھی، جس پر جرمنی میں بعض حلقوں کی طرف سے تشویش کا اظہار بھی کیا گیا تھا اور یہ معاملہ چانسلر مرکل کے لیے مشکلات کا سبب بن رہا ہے۔