جرمنی (جیوڈیسک) وفاقی جرمن وزارت داخلہ کی ایک رپورٹ کے مطابق حالیہ عرصے کے دوران جرمنی سے پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی ملک بدریوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ماہرین کے مطابق ملک بدریوں میں اضافے کی ایک بڑی وجہ جرمنی اور تارکین وطن کے آبائی ممالک کے ساتھ مہاجرین کی شناخت کے بارے میں مزید معاہدے بھی ہیں۔
جرمنی نے 32 ممالک کے ساتھ گزشتہ کئی برسوں سے ایسے معاہدے کر رکھے ہیں کہ وہ اپنے اپنے شہریوں کی وطن واپسی میں تعاون کریں گے۔ علاوہ ازیں یورپی یونین نے بھی پاکستان سمیت 13 ممالک کے ساتھ پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی واپسی کے معاہدے کیے ہوئے ہیں۔
ان معاہدوں کے باوجود یورپ میں سیاسی پناہ کی تلاش میں آنے والے افراد کی پناہ کی درخواستیں مسترد کر دیے جانے کے بعد بھی انہیں واپس بھیجے جانے کی راہ میں کئی انتظامی رکاوٹیں حائل ہوتی رہی ہیں۔ حالیہ برسوں کے دوران جرمنی نے ملک بدری کا عمل آسان بنانے کے لیے کئی ممالک کے ساتھ مذاکرات شروع کر رکھے ہیں۔
جرمنی نے گزشتہ برس ہی مراکش، الجزائر اور تیونس سے تعلق رکھنے والے پناہ کے متلاشی افراد کی وطن واپسی کا عمل آسان بنانے کے لیے ان ممالک کے ساتھ معاہدے بھی کیے ہیں۔ اس کے بعد ہی گزشتہ برس کے دوران جرمنی سے تیونس اور الجزائر جیسے شمالی افریقی ممالک واپس بھیج دیے جانے والے پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی تعداد سن 2015 کے مقابلے میں چودہ گنا زیادہ رہی۔
افغانستان کے ساتھ ایسا ہی ایک معاہدے سن 2017 میں طے پایا تھا جس کے بعد جرمنی سے افغان مہاجرین کی اجتماعی ملک بدری کے عمل میں تیزی آئی ہے۔
جرمن وزارت داخلہ کی ایک داخلی دستاویز کا حوالہ دیتے ہوئے مقامی میڈیا نے بتایا ہے کہ گزشتہ برس کے دوران 1873 شمالی افریقی شہری ملک بدر کیے گئے۔ اس سے تین برس قبل یعنی سن 2015 میں ان ممالک کے محض ساٹھ افراد ہی ملک بدر کیے جا سکے تھے۔
جرمنی سے افغان مہاجرین کی ملک بدری ابھی تک ایک متنازعہ معاملہ ہے۔ تاہم گزشتہ برس افغان شہریوں کی واپسی میں بھی اضافہ ہوا اور مجموعی طور پر 284 افغان کو وطن واپس بھیجا گیا۔ اس سے گزشتہ برس ایسے افغانوں کی تعداد 121 رہی تھی۔
وفاقی جرمن ریاست باڈن ورٹمبرگ سے سن 2017 کے اختتام تک ساڑھے پچیس ہزار غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا جانا تھا۔ ان میں 1803 پاکستانی شہری بھی شامل ہیں۔
ماضی میں جرمنی حکام بھارت پر الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ وہ اپنے شہریوں کی واپسی کے عمل میں تعاون نہیں کر رہا۔ گزشتہ برس بھارتی شہریوں کی وطن واپسی میں بھی نمایاں اضافہ نوٹ کیا گیا، جرمنی سے ملک بدر کردہ بھارتیوں کی تعداد 212 رہی جب کہ اس سے پچھلے برس یہ تعداد محض 32 تھی۔
گھانا اور گیمبیا جیسے دیگر افریقی ممالک کی جانب ملک بدریوں میں بھی اضافہ ہوا۔
مہاجرین کے حقوق کے لیے سرگرم ایک جرمن تنظیم کے مطابق گزشتہ برس جرمنی چار مختلف اوقات میں خصوصی پروازوں کے ذریعے پاکستانی شہریوں کی اجتماعی ملک بدری کی گئی۔ گزشتہ برس چھ دسمبر کو ایک چارٹرڈ طیارے کے ذریعے چالیس پاکستانی شہریوں کی اجتماعی ملک بدری کی گئی تھی۔
سن 2018 کے پہلی ششماہی کے دوران کم از کم سات ہزار پاکستانی شہری ایسے تھے جنہیں لازمی طور پر جرمنی سے ملک بدر کر کے واپس پاکستان بھیجا جانا تھا۔ تاہم پاکستانی شہریوں کی ملک بدریوں کے عمل میں تسلسل نہیں پایا جاتا۔
صوبہ باویریا میں مہاجرین کے لیے سرگرم ایک تنظیم کے مطابق دسمبر میں ملک بدر کیے گئے پاکستانیوں میں ایسے افراد بھی شامل تھے جن کے پاس پاسپورٹ یا دیگر سفری دستاویزات نہیں تھیں۔ ان میں سے زیادہ تر افراد جرائم پیشہ تھے اور انہیں قید سے ہی نکال کر پاکستان بھیج دیا گیا تھا۔
اس سے قبل تک پاکستانیوں کی ملک بدری کے لیے عام طور پر سفری دستاویزات کی موجودگی لازمی تھی۔ اسی تناظر میں امدادی تنظیم جرمنی میں مقیم پناہ کے مسترد درخواست گزار پاکستانیوں کو متنبہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ملک بدریوں سے بچنے کے لیے پہلے ہی اپنے وکلا سے مشاورت کر لیں۔