جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمن چانسلر نے اعتراف کر لیا ہے کہ کووڈ ویکسین لگانے کا سست آغاز ’باعث مایوسی‘ ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ جلد ہی یہ عمل تیز ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ تیسری لہر سے بچنے کے لیے جرمنی کو ’سمارٹ‘ ہونا پڑے گا۔
جرمنی میں کووڈ انیس سے نمٹنے کے لیے لوگوں کو ویکسین لگانے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ تاہم یہ عمل توقعات کے برعکس انتہائی سست رفتاری سے شروع ہوا ہے۔ اس تناظر میں جرمن حکومت کو تنقید کا سامنا بھی ہے۔
جمعے کے دن جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اعتراف کیا کہ ویکسین لگانے کا سست آغاز مایوسی کا باعث ہے لیکن ملک میں قائم ویکسین لگانے والے تمام سینٹرز جلد ہی مکمل طور پر فعال ہوتے ہوئے اس عمل میں تیزی لے آئیں گے۔
جرمنی میں اس عالمی وبا سے نمٹنے کے لیے گزشتہ برس دسمبر میں ویکسین لگانے کا عمل شروع کیا گیا تھا۔ حکومتی اعدادوشمار کے مطابق تقریبا تین اعشاریہ آٹھ ملین ویکسین لگا بھی دی گئی ہیں۔
جرمنی میں نمائش کے لیے بنائے گئے خصوصی ہالوں اور اسپورٹس سینٹرز میں ویکسین لگانے کے خصوصی مقامات بنائے گئے ہیں۔ تاہم ان مقامات پر اتنے لوگوں کو ویکسین نہیں دی جا سکی، جتنا کہ نرسنگ ہومز اور ہسپتالوں میں دی گئی ہیں۔
جرمن حکومت کے مطابق تین مختلف ویکسین برانڈز کے استعمال کی منظوری دی جا چکی ہے، جس کے باعث آئندہ ہفتوں میں لوگوں کو ویکسین لگانے کا عمل زیادہ تیز ہو سکے گا۔
بتایا گیا ہے کہ ایسٹر (اپریل کے پہلے ہفتے) تک ایسے افراد کو ویکسین لگانے کی پیش کش کر دی جائے گی، جو اس عالمی وبا سے زیادہ متاثر ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ میرکل کے بقول مارچ اور اپریل میں ویکسین لگانے والے تمام سینٹرز بھرپور طریقے سے فعال ہو چکے ہوں گے۔
ایمیزون کے بانی جیف بیزوس (اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ) کا الگ ہی انداز ہے۔ ان کی ای- کامرس کمپنی نے وبا کے دوران بزنس کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ بیزوس کورونا وائرس کی وبا سے پہلے بھی دنیا کے امیر ترین شخص تھے اور اب وہ مزید امیر ہوگئے ہیں۔ فوربس میگزین کے مطابق ان کی دولت کا مجموعی تخمینہ 193 ارب ڈالر بنتا ہے۔
جرمن چانسلر میرکل نے کہا ہے کہ کورونا لاک ڈاؤن کو نرم کرنے کا سلسلہ مرحلہ وار ہونا چاہیے تاکہ کووڈ کی تیسری لہر سے بچا جا سکے۔ جرمن پبلک براڈ کاسٹر زیڈ ڈٰی ایف کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ اس کا انحصار جرمن عوام پر ہے کہ وہ تیسری لہر سے بچنے کی خاطر کیا اقدامات اختیار کرتے ہیں۔
میرکل کے مطابق اگر حکومت نے لاپرواہی کا مظاہرہ کیا تو جرمنی میں اس عالمی وبا سے متاثرہ لوگوں کی تعداد میں پھر اضافہ ہو سکتا ہے۔ جرمنی کی وفاقی حکومت نے تمام سولہ صوبوں کی مشاورت سے لاک ڈاؤن کو سات مارچ تک بڑھانے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ تاہم حجام اور سکولوں کو دوبارہ کھولنا اولین ترجیح بتائی گئی ہے۔
میرکل نے کہا کہ سکولوں کو کھولنے کا فیصلہ ایک ‘بہاردانہ قدم‘ ہو گا۔ اس حوالے سے جرمن صوبوں کو اختیارات دیے گئے ہیں کہ وہ بچوں کو کلاس رومز میں تعلیم دینے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں۔ فی الحال یہ بچے آن لائن کلاسیں لے رہے ہیں۔ توقع ہے کہ زیادہ تر جرمن صوبے بائیس فروری سے اسکول کھول دیں گے۔
جرمن وزیر صحت ژینس شپاہن نے جمعے کے دن ہی کہا کہ نئے کیسوں میں کمی کے حوصلہ افزا آثار نظر آ رہے ہیں۔ تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ یہ مثبت پیشرفت اتنی اچھی بھی نہیں کہ لاک ڈاؤن اٹھا لیا جائے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئندہ ہفتوں میں اس وائرس کی نئی تبدیل شدہ اقسام صورتحال بدل بھی سکتی ہیں۔ وزیر صحت نے کہا کہ بہتر یہی ہے کہ اس وقت احتیاط کی جائے تاکہ کوئی نئے خطرہ پیدا نہ ہو سکے۔
کووڈ کی تبدیل شدہ نئی اقسام کی وجہ سے جرمنی نے مزید یورپی ممالک کے افراد کے جرمنی داخلے پر پابندیاں سخت کر دی ہیں۔ چیک جمہوریہ، سلوواکیہ اور آسٹریا کے کچھ حصوں کو اس حوالے سے خطرناک قرار دے دیا گیا ہے۔
اتوار کے دن سے ان ممالک سے جرمنی آنے والے افراد صرف خصوصی حالات میں ہی جرمن داخل ہو سکیں گے۔
جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے بتایا ہے کہ جرمن سرحدوں پر خصوصی چیک پوائنٹس قائم کیے جائیں گے لیکن اس سے کمرشل ٹریفک متاثر نہیں ہو گی۔ ساتھ جرمن شہریوں کی ملک واپسی اور طبی عملے کی آمد پر بھی کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی ہے۔