جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمن وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ جرمنی سے فوجیوں کو ہٹانے کی امریکی دھمکی سے دونوں ممالک کے تعلقات کو نقصان نہیں پہنچے گا، تاہم مجموعی طور پر یہ نیٹو اتحاد کے لیے باعث تشویش بات ضرور ہوگی۔
جرمن وزیر دفاع انیگریٹ کرامپ کارین برگ کا کہنا ہے کہ گزشتہ ماہ واشنگٹن نے جرمنی سے امریکی فوجیوں کے ہٹانے کی جو دھمکی دی تھی اس سے دونوں ملکوں کے تعلقات کو تو نقصان نہیں پہنچے گا تاہم اس منصوبے سے نیٹو کے اتحادی ممالک میں ایک بحث ضرور شروع ہوگی۔
ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں جرمن وزیر دفاع نے کہا، ”اگر وہ فوجی یورپ میں ہی ٹھہرتے ہیں تب تو یہ نیٹو کے تئیں ہی ایک عزم ہوگا۔ لیکن اگر انہیں بحرالکاہل میں تعینات کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ امریکا کی حکمت عملی بدل گئی ہے، پھر اس سے نیٹو کے اندر بحث تو چھڑے گی ہی۔”
گزشتہ ماہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جرمنی میں تعینات امریکی فوجیوں کے انخلا کے ایک منصوبے پر دستخط کر دیے تھے جس کے مطابق ساڑھے نو ہزار فوجیوں کو جرمنی سے ہٹا لیا جائیگا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس قدم سے یورپیئن سکیورٹی کو اور بھی مضبوطی ملے گی۔ پینٹاگون کے ترجمان جوناتھن ہوفمین نے کہا تھا کہ اس منصوبے سے جہاں ”روسی دفاع کو طاقت ملے گی وہیں نیٹو مزید مضبوط ہوگا۔”
جون میں اس اعلان سے قبل امریکی انتظامیہ نے برلن سے دفاع پر مزید خرچ کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ جرمنی کو نیٹو کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنی مجموعی گھریلو پیداوار(جی ڈی پی) کا دو فیصد بجٹ دفاع کے لیے مختص کرنا چاہیے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اگر جرمنی نے اخراجات سے متعلق اپنی یہ ذمہ داریاں پوری نہیں کیں تو امریکا جرمنی میں تعینات 34 ہزار 500 فوجیوں میں دس ہزار تک کی کمی کر دیگا۔
نیٹو اتحاد میں شامل ممالک نے 2014 میں اس بات سے اتفاق کیا تھا کہ وہ 2024 تک دفاع کے لیے اپنے جی ڈی پی کی دو فیصد رقم مختص کریں گے۔ لیکن جرمنی اپنے دفاعی بجٹ میں اس ہدف سے ابھی کہیں پیچھے ہے اور فی الوقت وہ ایک اعشاریہ تین فیصد ہی خرچ کر رہا ہے۔ کورونا وائرس کی وبا کے پیش نظر معیشت سست رفتارہے ورنہ جرمنی کی کوشش تھی کہ وہ رواں برس کے اواخر تک اپنے ہدف کے قریب تر پہنچ جائیگا۔
جرمن وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ روس سے توانائی کی سپلائی کے لیے متنازعہ نارڈ سٹریم پائپ لائن پر بات چیت کی جاسکتی ہے تاہم پابندیاں عائد کرنے سے متعلق امریکی دھمکی عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ”ہماری جرمن حکومت کی واضح پالیسی ہے کہ اس سلسلے میں امریکی پابندیوں کی دھمکی عالمی قوانین کے عین مخالف ہے۔”
گیس کی فراہمی کے لیے یہ مجوزہ روسی سپلائی لائن بحیرہ بالٹک سے ہوتی ہوئی جرمنی کو توانائی مہیا کرے گی۔ لیکن امریکا کو روس اور جرمنی کے
درمیان یہ معاہدہ پسند نہیں ہے۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اس پائپ لائن کی تعمیر میں جو بھی کمپنیاں شامل ہیں اگر وہ باز نہ آئیں تو انہیں امریکی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
امریکا کے ساتھ بعض مشرقی یورپی ملک بھی اس موقف کے حامی ہیں کہ اس پائپ لائن سے یورپی ممالک کا روسی گیس پر انحصار مزید بڑھ جائیگا۔ لیکن یورپی یونین نے اس حوالے سے امریکا کو پابندیاں عائد کرنے سے باز رہنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ پابندی کے بجائے اسے جرمنی سے بات چیت کرنی چاہیے۔
جرمن وزیر دفاع کا بھی یہی موقف ہے۔ ان کا کہنا ہے، ”نارڈ اسٹریم 2 پروجیکٹ پر نیٹو ارکان کے ساتھ ساتھ یورپی یونین میں بھی بحث چل رہی ہے۔ اس بات پر تشویش ظاہر کی جارہی ہے کہ کہیں جرمنی روس کی گیس کی سپلائی پر ہی منحصر نہ ہوجائے۔ ہم نے بات چیت کے ذریعے اس تشویش کو کسی حد تک کم کردیا ہے تاہم اس معاہدے کے حوالے سے یوکرائن اور پولینڈ کے مفادات پر بھی تو بات کرنے کی ضرورت ہے۔”
امریکی وزیر دفاع اس وقت ڈنمارک کے دورے پر ہیں اور امکان ہے کہ وہ اس گیس پائپ لائن کے حوالے سے ڈنمارک کی انتظامیہ سے بھی بات چیت کریں گے۔