جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا نے عراق میں تعینات اپنے دو ہزار سے زائد فوجیوں کو نکالنے کی بات کہی ہے جبکہ جرمنی نے بھی مشرقی وسطی میں موجود اپنے فوجیوں کی تعداد میں کمی کا اعلا ن کیا ہے۔
امریکا نے بدھ نو ستمبر کو اعلان کیا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عراق سے کبھی نہ ختم ہونے والی جنگ سے نجات دلانے کا جو وعدہ کیا تھا وہ پورا ہو چکا ہے اس لیے امریکا اسی ماہ عراق سے اپنے دو ہزار سے بھی زائد اضافی فوجیوں کو واپس بلا لے گا۔ صدر ٹرمپ نے عراق میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں کمی کا یہ اعلان ایک ایسے وقت کیا ہے جب وہ دوسری عالمی جنگ میں ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں کو شکست خوردہ کہنے کے سبب شدید تنقید کی زد میں ہیں۔
معتبر جریدے ‘اٹلانٹک’ میں حال ہی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ امریکی صدر نے سن 2018 میں فرانس کے دورے کے دوران پہلی عالمی جنگ میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کے معروف قبرستان میں یہ کہہ کر جانے سے منع کر دیا تھا کہ یہ تو شکست خوردہ امریکی فوجیوں سے بھرا ہوا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس رپورٹ کی مذمت کرتے ہوئے اس کی تردید کی تھی اور کہا کہ یہ ان کے لیے حیرن کن بات ہے۔ تاہم اس خبر کے بعد سے ہی امریکی فوجیوں کے تئیں ان کے رویے پر کافی نکتہ چینی ہورہی ہے۔
امریکی سینٹرل کمانڈ کے میرین کمانڈر جنرل فرانک میکنزی نے عراق سے فوجیوں کی واپسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہاں امریکا کے 5200 فوجی ہیں جن میں سے اب صرف تین ہزار فوجیوں کو رکھا جائے گا باقی سب کو اسی ماہ واپس بلایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا، ”امریکی فیصلہ ہماری اس مسلسل وابستگی کا مظہر ہے جس کا کلیدی مقصد عراقی سکیورٹی فورسز کو اس لائق بنانا ہے کہ وہ خود داعش کی پیش قدمی کو روکنے اور بیرونی امداد کے بغیر عراق کی خود مختاری اور اس کی سالمیت کے تحفظ کی صلاحیت رکھتی ہوں۔”
انہوں نے کہا، ”یہ سفر تو مشکل رہا اور قربانیاں بھی عظیم ہیں، لیکن اس کے ساتھ ہی اہم پیش رفت بھی ہوئی ہے۔” امریکی فوج کے ایک سینئر افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا ہے کہ اسی طرز پر آنے والے کچھ دنوں کے اندر ہی افغانستان سے بھی اضافی امریکی فوجیوں کے انخلا ء کے اعلان کی توقع کی جا سکتی ہے۔
امریکا نے افغانستان پر سن 2001 میں حملہ کیا تھا اور تبھی سے وہاں پر اس کی فوجیں تعینات ہیں۔ عراق پر حملہ 2003 میں ہوا تھا اور پھر صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کے بعد 2011 میں امریکا نے اپنی فوجیں واپس بلا لی تھیں۔ لیکن عراق اور شام کے ایک بڑے خطے پر شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے قبضے کے بعد انہیں شکست دینے کے لیے امریکا نے 2014 میں دوبارہ اپنی فوجیں عراق بھیجی تھیں۔
عراق میں تعینات فوجیوں میں کمی کا اعلان صرف امریکا نے نہیں بلکہ جرمنی نے بھی کیا ہے۔ بدھ کے روز جرمن حکومت نے کہا کہ مشرقی وسطی میں تعینات وہ اپنے فوجیوں کی تعداد میں کمی کرنے جا رہا ہے۔ جرمنی کا کہنا ہے کہ اب وہ عراق کی سر زمین پر اپنے صرف پانچ سو ہی فوجی رکھنا چاہتا ہے۔
جرمن وزیر دفاع اینیگریٹ کرامپ کا کہنا تھا، ”کورونا وائرس کی وبا کے دور میں بھی داعش کی دہشتگردانہ کارروائیاں جاری ہیں اور اس صورت حال میں دولت اسلامیہ کے شدت پسندوں پر فوجی دباؤ بنائے رکھنا بہت ضروری ہے۔” عراق میں داعش سے نمٹنے کے لیے عالمی برادری نے جو وعدے کیے تھے اسی کے تحت جرمنی نے بھی اپنے فوجی عراق بھیجے تھے۔
جرمنی نے اس کے لیے اپنے ٹورناڈو جاسوس جیٹ، ایئر اسپیس ریڈار اور نقل و حمل سے متعلق ٹیکنالوجی مہیا کر رکھی ہے اور اس وقت جرمن فوجیں عراقی فورسز کی تربیت کا کام بھی کر رہی ہیں۔ عراق میں بیشتر جرمن فوجی کردوں کے زیر اثر شمالی علاقے میں تعینات ہیں۔