ہمیں یقیں ہے مصائب یہ ٹل ہی جائیں گے جو گررہے ہیں تو اِک دن سنبھل ہی جائیں گے یہ وقت سب پہ کڑا ہے مگربہ فیضِ حرفِ دعا سکوتِ مرگ کے سائے بھی ڈھل ہی جائیں گے میرے عزیزو! زمانے کے چارہ ساز بنو کہ ساتھ اپنے یہ اچھے عمل ہی جائیں گے جو ہوچکے ہیں ترازو میری رگِ جاں میں اذیتوں کے وہ ِنشتر ِنکل ہی جائیں گے کسی کی راہ کے کانٹے اٹھائو تُم پہلے تمہاری راہ کے پتھر پگھل ہی جائیں گے