تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی روزِ اول سے اِس رنگ و بو کی دنیا میں حضرت انسان اپنے حصے کا کردار اور اظہار کر تا ہے اور مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہو کر مٹی کا حصہ بن جاتا ہے انسان اپنی فطرت اور مزاج میں عجب مجموعہ ہے عفو و در گزر پر آئے تو قا تل کو شربت کا جام پیش کر دیتا ہے اور اگر دشمنی اور انتقام پر آئے تو مخالف کی آنکھوں میں گرم لوہے کی سلاخیں پھروا دیتا ہے۔ بے نیاز قلندری اس قدر کہ تخت شاہی چھوڑ کر بن باس لیتا ہے اور حریص اس قدر کہ تخت شاہی اور اقتدار کے لیے با پ کو جیل بھجوا کر بھائیوں کی گردنیں تن سے جدا کرکے زندہ کھال کھینچوا دیتاہے ۔ سخی اتنا کہ ہزاروں بار کسی کی جان بچانے کے لیے اپنی جان دینے کو تیار اور بخیل اس قدر کہ چند سِکوں کی خاطر اپنے بھائیوں کا خون بہا دیتا ہے مال و دولت اکٹھی کر نے پر آئے تو لگتا ہے ہزاروں برس زندہ رہے گا اور اگر قربانی پرآئے تو یوں لگتا ہے اگلے ہی لمحے مرنے والا ہے ۔ یقینا حضرت انسان کا یہی تضاد کائنات کا اصل حسن ہے۔
کرہ ارض پر اربوں انسانوں کے اِس ہجوم میں ایک مقدس گروہ ایسا بھی ہر دور میں رہا ہے جو کائنات کے لا زوال حسن اور ترتیب کو دیکھ کر خالق کائنات کے عشق میں گرفتار ہو جاتا ہے پھر یہ لوگ مالک بے نیاز کے قرب کے لیے اپنے جسم اور روح کی کثافتوں کو لطافتوں میں بدلنے کے لیے عبادت ریاضت اور مجاہدے کو اپنی زندگی کا حصہ بناتے ہیں جب یہ اپنی اِس کو شش میں خالق ارض و سما کو اپنی طرف متوجہ کر تے ہیں تو اول و آخر ظاہر و باطن رحمن رحیم کریم اِن پر محبت بھری ایک نظر ڈالتا ہے جیسے ہی مالک بے نیاز کی پہلی تجلی کسی عاشق ِ الہی پر وارد ہو تی ہے تو عاشق و سالک خلوت گزینی تنہائی کی طرف مائل ہو جا تا ہے دنیا کے ہنگاموں سے دل اچاٹ ہو جا تا ہے کا ئنات کے حسن اور خالق کے جلوئو ں میں اِیسا گم ہو جا تا ہے کہ دنیا کی خبر نہیں رہتی خالقِ کائنات اور مظاہرفطرت پر غور و فکر اور مراقبہ عاشق پر غالب آجا تا ہے ایسے لوگ پھر پہاڑوں ، غاروں ، صحرائوں اور دریا کے کناروں کا رخ کر تے ہیں۔
دریا کا پانی مٹی کی خوشبو آزاد ہو ائیں فضا ئیں سالک کی روح کو معطر اورمشام کو مسحور کر دیتی ہیں ۔ چند صدیاں پہلے ایک نوجوان پر ایسی ہی تجلی وارد ہو ئی تو وہ ذہنی آسودگی اور اطمینان قلب کے لیے دنیا کو چھوڑ کر دریا کے کنارے ڈیرا لگاتا ہے ۔ دریا کا پانی اور آزاد ہو ائوں فضائوں نے اُس پر اور بھی جذب و سکر کا غلبہ کر دیا کئی دن اِسی استغراق کے عالم میں گزر گئے کئی دن کی بھوک کے بعد جسم پر کمزوری نے غلبہ ڈالنا شروع کر دیا۔ نوجوان نے ادھر اُدھر دیکھا لیکن یہاں پر کھانے کو کچھ نہ تھا اچانک دریا میں بہتے ہو ئے سیب پر نظر پڑی نوجوان نے سیب کو رازقِ عالم کی رزاقی سمجھا پکڑا اور کھا لیا ۔ سیب کھانے کے بعد طمانیت کا احساس ہوا لیکن اچانک دماغ میں ایک اندیشے نے سر ابھارا کہ یہ سیب کس کا تھا اِس کا مالک کو ن تھا میں نے مالک کی مرضی کے بغیر ہی سیب کھا لیا یہ تو چوری ہو گئی نوجوان کی روحانی کیفیت بسط سے قبض میں تبدیل ہو گئی کہ میں نے مالک کی مرضی کے بغیر سیب کھا لیا نوجوان کا اضطراب و حشت میں بدل گیا۔
Apple Tree
بے قراری اِس قدر بڑھ گئی کہ جدھر سے سیب آیا تھا ادھر بھاگنا شروع کر دیا ۔ کا فی لمبے سفر کے بعد اُسے سیبوں کا باغ دکھائی دیا کیونکہ سیبوں کے درخت دریا کے اوپر جھکے ہو ئے تھے ۔ نوجوان کو یقین ہو گیا کہ وہ سیب اِسی باغ سے گیا تھا نوجوان تیزی سے باغ میں داخل ہو اتو سامنے ایک مزدور ملا اُس سے مالک کا پو چھا تھوڑی دیر میں ہی باغ کا مالک ایک بوڑھا شخص آگیا بوڑھے شخص کے چہرے پر ملکوتی نور پھیلا ہو اتھا بوڑھے مالک نے دلنواز تبسم سے نوجوان سے آنے کا سبب پو چھا تو نوجوان نے سارا واقعہ سنا دیا اور کہا کیونکہ میں نے سیب کھا کر جرم کیا ہے اِس لیی آپ مجھے اِس جرم کی سزا دیں باغ کے مالک نے غور سے نوجوان کو سر سے پائوں تک دیکھا اور سنجیدہ لہجے میں کہا میرا تمہارا احسان برابر ہو سکتا ہے لیکن اِس کی دو شرطیں ہو نگیں۔
پہلی شرط یہ ہو گی کہ تم ایک ماہ مسلسل میرے باغ کو پانی دو گے جب تم یہ ڈیوٹی احسن طریقے سے سر انجام دے دو گے تومیں تمھیں دوسری شرط بتائوں گا اب اِن دونوں شرطوں میںسے اگر تم نے ایک بھی پو ری نہ کی تو روزِ محشر تم میرے قرض دار ہو گے نوجوان نے فوری طور پر اقرار میں گردن ہلا دی کہ مجھے آپ کی دونوں شرطیں منظور ہیں بوڑھے مالک نے حیرت اور سکوت سے نوجوان کو دیکھا اور کہا تم ٹھیک ہو ، تم آج سے ہی اپنی ڈیوٹی شروع کر وٹھیک ایک ماہ بعد تم سے ملا قات ہو گی بوڑھا شخص یہ کہہ کر چلا گیا ۔ نوجوان نے بہت ایمان داری اور محنت سے ایکماہ باغ کو پانی دیا ۔ نوجوان ایک بار پھر باغ کے مالک کے سامنے سر جھکائے کھڑا اگلے حکم کا منتظر تھا باغ کا مالک حیرت سے نوجوان کو دیکھ رہا تھا ۔ جس کے ماتھے پر عبادت کا نشان اور کردار کا نو رچمک رہا تھا جو اپنی دوسری شرط پو ری کر کے احساس ندامت کے سمند ر سے نکلنا چاہتا تھا بوڑھے مالک نے غور سے نوجوان کو دیکھا اور دوسری شرط بیان کی کہ دوسری شرط کے مطابق تمہیں میری بیٹی سے شادی کر نا ہو گی۔
نوجوان نے حیرت سے مالک کی طرف دیکھا اور کہا میں آپ کی بیٹی سے شادی کر نے کے لیے تیا ر ہوں اب بوڑھا مالک سنجیدہ لہجے میں بو لا میں شادی سے پہلے تمہیں اپنی بیٹی کے عیب بتا دینا چاہتا ہوں میری بیٹی پیدائشی بد صورت ہے گردش ِ تقدیر نے اُسے اندھا اور اپاہج بنا دیا ہے ۔ نوجوان نے بات سن کر کہا اے محترم انسان کیا آپ کی اندھی اور معذور لڑکی سے شادی کر کے میری غلطی معاف ہو سکتی ہے ۔ نوجوان کا سوا ل سن کر باغ کا مالک بھی پریشان سا ہو گیا اور بولا دنیاوی قانون کے مطابق تو یہ شرط ٹھیک نہیں لیکن میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ تمہا ری معافی اسی صورت پو ری ہو گی جب تم میری دوسری شرط پو ری کرو گے ۔ نوجوان نے دل میں اپنے خدا کو یا دکیا اور دعا کی کہ اے مالک مجھے استقامت دے اور پھر نوجوان نے اپنی رضا مندی کا اظہار کر دیا۔
Hzrat Ghaus Azam
بوڑھے شخص نے جلدی جلدی شادی اور نکاح کے سارے انتظامات کر دئیے بوڑھے باپ اور نوجوان کے چہروں پر خاص قسم کا نور پھیلا ہوا تھا جو واضح طور پراِس چیز کی نشاندہی کر رہا تھا کہ دونوں کے چہروں پر فرض کی ادائیگی کا نور تھا ۔اور پھر رات کو نوجوان اپنی دلہن کے کمرے میں گیا تو اُس کو خوشگوار جھٹکا لگا اندر جو لڑکی تھی وہ صحت مند اور بہت خوبصورت تھی نہ ہی وہ اندھی تھی اور نہ ہی معذور نوجوان تیزی سے با ہر نکلا اور اپنے خُسر کے پاس جا کر کہا کہ اندر کو ئی اور لڑکی بیٹھی ہے تو خُسر مسکرایا اور کہا اے بچے وہ تیری ہی بیوی ہے اور مالک کا ئنات نے تجھے اِس آزمائش میں ثابت قدم رکھا ۔ مگر آپ نے غلط بیانی سے کیوں کام لیا ؟ نوجوان سچ جاننے کے لیے بے قرا ر تھا ۔ تو بوڑھا بولا نوجوان میں نے جھوٹ نہیں بولا میں نے اپنی بیٹی کی پر ورش اسلام کے مطابق کی ہے وہ آج تک کسی نامحرم کے سامنے نہیں آئی اِس لیے وہ اندھی ہے اور آج تک اس کے قدم گنا ہ کی طرف نہیں اُٹھے اِ س لیے وہ اپاہج ہے۔
نوجوان نے خوشگوار حیرت سے اپنے خسر کی باتیں سنیں مالک خدا کا شکر ادا کر کے اپنے کمرے میں داخل ہوگیا جہاں نیک پاکباز دوشیزہ اُس کا انتظار کر رہی تھی ۔ باغ کے مالک کا نام حضرت سید عبداللہ صو معی تھا جو اپنے وقت کے بہت بڑے صوفی تھے ان کا سلسلہ نسب تیرھویں پشت سے حضرت حسین سے مل جا تا ہے اُن کی بیٹی کا نام فا طمہ تھا جو اپنے وقت کی بہت بڑی عابدہ اور نیک خاتون تھیں اور نوجوان جس سے سیدہ فاطمہ کی شادی ہو ئی وہ اپنے وقت کے نامور بزرگ حضرت سید ابو صالح موسی تھے۔ قدرت کا ایک بہت خوبصورت راز ہے جب وہ اپنے کسی خاص بندے کو دنیا میں بھیجتا ہے تو اس کے لیے شاندار زمین تیار کر تا ہے جس میں دنیا کی انمول فصل تیار ہو سکے سیب کھانے والے نوجوان اور عظیم صوفی کی بیٹی یہی وہ عظیم والدین تھے جن کے گھر میں اولیا ء کے سر تاج اولیاء کے چاند روشن ہوئے جس کو دنیا غوث ِ اعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی کے نام سے جانتی ہے۔