اِس درجہ پُریقین تھے وہم و گمان میں

اِس درجہ پُریقین تھے وہم و گمان میں
تاعمر جاگتے رہے سوئے مکان میں
جھیلا ہے دل پہ عشق کی میراث جان کر
دیکھا تھا ایک تیر جو تیری کمان میں
جِس کو تمہارے ہجر کا آسیب ڈس گیا
رہتے ہیں اب تلک اسی اجڑے مکان میں
ڈھونڈا کئے ہیں اب تلک کس اضطراب سے
ملتا نہیں ہے کوئی بھی تجھ سا جہان میں
جس میں ہماری زیست کے رنج و ملال ہیں
آئے گا تیرا نام بھی اُس داستان میں
ہم سے تو خیر موسمِ گُل کی نہ بن سکی
وحشت ہے کس قدر تیرے سبزے کے لان میں
ساحل کئے ہیں ضبط یہ اسرار جان کر
عجلت سے کب ملی ہے مسرت جہان میں

Sahil Munir

Sahil Munir

ساحل منیر