جو کنارا نظر میں رکھا ہے اُس نے ہم کو بھنور میں رکھا ہے آج بھی وہ اولیں خواہش! جِس نے بارِ دگر میں رکھا ہے اُس کو منزل نصیب ہو جائے جِس نے ہم کو سفر میں رکھا ہے اے میرے تاجرِ ہوس لے جا اِک خسارا جو گھر میں رکھا ہے ہم کو اِس عشق کے سمندر نے کب سے مدوجزر میں رکھا ہے خون پیتے ہیں روز و شب اپنا خود کو وحشت نگر میں رکھا ہے کب بہلتا ہے بوند سے جس نے اِک سمندر نظر میں رکھا ہے