میں اگر جیت جائوں تیری ہار ہے زندگانی کا یہ کھیل دشوار ہے آج قسمت ہے لے آئی اُس موڑ پر وقت کے پائوں پڑنا بھی بے کار ہے آگہی کے سبھی در ہوئے اُس پہ وا جو زمانے کی نظروں میں میخوار ہے اِس گناہوں، ثوابوں کے احوال میں واعظوں سے سدا اپنا تکرار ہے جب سے دیکھے ہیں دنیا کے غم دوستو! اپنی ہر آرزو وقفِ آزار ہے ظلم کے، جبر کے ضابطوں سے ہمیں حاکمِ شہر سے کہدو انکار ہے جِس نے اپنے گریباں میں جھانکا نہیں اُس پہ ساحل زمانے کی دھتکار ہے