تحریر: رانا اعجاز حسین چوہان معروف عالم دین، مفسر قرآن اور عظیم محدث علامہ سید احمد سعید کاظمی رحمتہ اللہ علیہ کی دینی علمی و تحقیقی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔آپ ترویج و تبلیغ دین کے ساتھ ساتھ عالمی اور ملکی سیاست پر گہری نظر رکھتے تھے، اور شریعت و طریقت کے جامع ،علمی و عملی کمالات و محاسن سے مالا مال تھے۔ آپ نے جس علم و فن کی طرف توجہ فرمائی اسی کے امام قرار پائے۔ آپ صبر و قناعت کا پیکر اور فرمان رسالت ”الفقر فخری” کا مظہر اتم اور مسلک اہلسنت کے پاسبان تھے ، جن سے ملت اسلامیہ کے دین و ایمان کی کھیتی سرسبز و شاداب تھی۔ اپنے تو خراج عقیدت و محبت پیش کرتے ہی ہیں، اغیار کو بھی آپ کے علوم و فنون میں دسترس تامہ کا اعتراف کرنا پڑتا تھا، ہر ایک علم میں بالخصوص علم حدیث میں آپ کو انتہا درجے کا کمال حاصل تھا۔
اسکا اندازہ آپ کے درس حدیث میں شامل افراد کے خیالات و مشاہدات سے کیا جا سکتا ہے کہ آپ جب عشق و محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سرشار ہوکر درس حدیث کیلئے اپنی مسند پر رونق افروز ہوتے تو وقت کے جلیل القدر علماء و مشائخ کسب فیض کیلئے اس بحر بے کراں کے سامنے زانوے تلمذتہ کرنے کو سعادت اور آپ کی صحبت میں گزرے ہوئے چند لمحات کو سرمایہ افتخار سمجھتے۔ لوگ دوردراز سے اپنی علمی پیاس بجھانے اور روحانی تشنگی دور کرنے کیلئے حاضر ہوتے اور اس مرد حق آگاہ کی طرف سے رشد و ہدایت کے لعل و گوہر اور علم و عرفان کے لٹائے جانیوالے انمول موتی جمع کرنے میں ہر وقت مصروف رہتے۔ عام و خاص افراد آپ کے حلقہ درس میں شرکت کیلئے ایسے بیتاب و قرار نظر آتے جیسے پیاسا کنویں کی طرف جانے کیلئے۔ درس و تدریس کی اہم ذمہ داری اور گوں نا گوں قومی و ملی خدمات سر انجام دینے کے ساتھ ساتھ آپ نے کتب و رسائل کی صورت میں بھی کثیر تعداد میں گوہر ہائے گراں مایہ صفحہ ہائے قرطاس پر بکھیرے جو آپ کے قرآن و حدیث فقیہ وتفسیر سیرو مناقب اور سلوک وتصوف میں گہرے مطالعہ کا نتیجہ اور آپ کی جلالت علمی کی روشن دلیل ہیں۔ آپ مراد آباد کے مضافاتی شہر امروہہ کے محلہ کٹکوئی کے ایک عالی نسب سید گھرانے کے سربراہ حضرت علامہ سیدمحمد مختار احمد شاہ صاحب کاظمی رحمتہ اللہ علیہ کے ہاں 4ربیع الثانی 1331ھ پیدا ہوئے۔ ایام طفولیت میں ہی والد محترم کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا۔یہ سید گھرانہ اپنے علاقے میں اپنی شرافت و نجابت’ فضل و کمال’ علم و عرفان اور زہد و تقویٰ کی بنا پر غیر معمولی شہرت، عزت و توقیر کاحامل تھا۔
اس خاندان کا سلسلہ نسب حضرت امام موسیٰ کاظم رضی اللہ عنہ سمیت 42 واسطوں سے ہوتا ہوا سیدنا حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم سے جاملتا ہے۔ والد گرامی کی وفات کے بعدآپ کے پیرو مرشد اور برادر اکبر محدث زماں حضرت سید محمد خلیل کاظمی رحمتہ اللہ علیہ نے آپ کو اپنی آغوش تربیت میں لے لیا۔ چونکہ آپ کا گھرانہ علم و عمل کا گہوارہ تھا اور بچپن سے ہی آپ کی پیشانی سے آثار سعادت و کمال نمایاں تھے اسلئے آپ نے اپنی تعلیم کا آغاز تو اپنی والدہ محترمہ سے کیا جبکہ حضرت خلیل ملت نے آپ کی غیر معمولی ذہنی استعداداور روحانی صلاحیت کو سامنے رکھتے ہوئے آپ کی ایسی علمی و عملی اور ظاہری و باطنی تربیت فرمائی کہ آپ علم و عمل کے آفتاب بن کر افق عام پر نمودار ہوئے۔ جامعہ نعمانیہ میں تدریس کے دوران آپ کے ذمہ درسِ نظامی کی مشہور کتابوں (نور الانوار، قطبی، شرح جامی وغیرہ) کی تدریس مقرر کی گئی، جس سے طلبہ کا میلان آپ کی طرف بڑھنے لگا۔ یہاں تک کہ ایک وقت میں اٹھائیس اسباق کی تدریس آپ کیساتھ متعلق ہو گئی۔ حضرت قبلہ سید نفیر عالم ہر سال ملتان میں خواجہ غریب نواز سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اللہ علیہ کا عرس منعقد کیا کرتے تھے، انہوں نے اس سلسلہ میں آپ کو وہاں تقریر کی دعوت دی اور جب حضرت نفیر عالم نے آپ کی تقریر سنی تو دل وجان سے فدا ہو گئے اور تب سے ان کا پیہم اصرار رہا کہ آپ ملتان آ جائیں اور اہلیانِ ملتان کو مستفیض کریں۔ بالآخر 1935 ء کے اوائل میں آپ ملتان تشریف لے آئے۔ ملتان آنے کے بعد آپ نے اپنے رہائشی مکان میں ہی درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا۔
متلاشیانِ حق اور تشنگانِ علم دور دور سے آ کر آپ کے چشمہ فیض سے سیراب ہوتے رہے۔ نومبر 1935 ء میں آپ نے مسجد حافظ فتح شیر بیرون لوہاری دروازہ میں قرآن مجید کا درس شروع کیا۔ بعض بد بختوں نے اس درس کو ناکام کرنا چاہا چنانچہ علاقہ کے تمام مخالف علماء درس میں شرکت کرتے اور دورانِ درس مختلف قسم کے اعتراض کیا کرتے تھے۔ مگراللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ ہمیشہ ناکام رہے۔ حضرت نے اٹھارہ سال کے طویل عرصہ کے بعد یہاں درسِ قرآن مکمل کیا۔ اسی اثناء میں آپ نے عشاء کے بعد حضرت چپ شاہ صاحب کی مسجد میں درسِ حدیث شروع کیا اور پہلے مشکوٰة اور اس کے بعد بخاری شریف کا درس مکمل کیا۔ زندگی بھر تحریک ختم نبوت میں بھر پور حصہ لیا۔ پاکستان بن جانے کے بعد آپ رحمتہ اللہ علیہ جمعیت کے ناظم اعلیٰ اور مسلم لیگ کے صوبائی کونسل کے رکن کی حیثیت سے قاضی مرید احمد صاحبزادہ سید محمود شاہ گجراتی’ خواجہ عبدالحکیم صدیقی’ محمد اسلام الدین کو ساتھ لیکر 17 جولائی بروز جمعرات 1952 ء کو قرار داد لکھی، جسمیں دوسرے مطالبات کے علاوہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ شامل تھا چنانچہ مسلم لیگ صوبائی کونسل کے اجلاس مورخہ 27 جولائی بروز سوموار 1952 ء کو یہ قرارداد آٹھ کے مقابلے میں دو سو چوراسی (284 ) ووٹوں کی اکثریت سے منظور ہوگئی۔اس طرح قادیانیوں کے خلاف تحریک کے بانی آپ رحمتہ اللہ علیہ قرار پائے۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ صوم و صلواة کے اسقدر پابند تھے کہ ڈاکٹروں کے مشورے کے باوجودآپ رحمتہ اللہ علیہ نے روزے رکھے جو انکی عمر اور صحت کے اعتبار سے قابل قضا تھا۔ لیکن تقویٰ اور طہارت اور اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ و سلم سے وابستگی ہمیشہ ان کے سامنے رہی اور اس مرد حق نے روزے کے افطار کے بعد داعی اجل کو لبیک کہا۔ علامہ سید احمد سعید کاظمی رحمتہ اللہ علیہ نے علم کا جو خزانہ اپنی تصانیف اور شاگروں کی صورت میں چھوڑا ہے وہ ہمارے لئے گراں بہا اثاثہ ہے وہ راسخ فی العلم تھے۔ علامہ کاظمی رحمتہ اللہ علیہ نے ہمیشہ وجوہ اختلاف کو دور کرنے کی کوشش کی ہمیں ان کے مشن کو آگے بڑھانے کیلئے امت مسلمہ کی وحدت و اتحاد اور صحیح العقیدہ افراد کو منظم کرنے کیلئے علامہ کاظمی رحمتہ اللہ علیہ کی تقلید کرنا ہوگی۔ جمعیت علمائے پاکستان اور جماعت اہلسنت کے بانی حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی کے 32 ویںسالانہ عرس کی تقریبات آستانہ عالیہ سعیدیہ کاظمیہ شاہی عید گاہ خانیوال روڈ ملتان میں جاری ہیں۔
Rana AIjaz Hussain
تحریر: رانا اعجاز حسین چوہان ای میل :[email protected] رابطہ نمبر:03009230033