غازی علم دین شہید ؒ ہماری اسلامی تاریخ کا ایک ایسا سنہری نام ہے جو آج بھی مسلمانوں کے دلوں میں جوش پیدا کر دیتا ہے۔آپؒ ایک سچے عاشقِ رسولﷺ تھے اور آپ نے اپنی زندگی حضور اکرمﷺ کی عزت اور وقار پر قربان کر دی تھی۔ تحفظِ ناموس رسالت ﷺ کی خاطر آپ نے اپنی جان نچھاور کرکے جس سچی محبت کا ثبوت دیااُس پر آج بھی ملتِ اسلامیہ کو فخر ہے۔غازی علم دین شہید ؒ 4 دسمبر1908ء بروز جمعرات لاہور میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد کا اسمِ گرامی میاں طالع مند تھاجو لکڑی کا کام کرتے تھے۔اس زمانے میں ہندو مسلمانوں کے مذہب کے خلاف جھوٹی، من گھڑت ، بے بنیاد اور غلط باتیں پھیلاتے تھے راج پال نامی ایک ہندو شخص نے نبی اکرم ﷺ کی شان کے خلاف ایک کتاب فرضی نام سے لکھی اور شائع کی جس پر ہندوستان کے مسلمانوں میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔
مسلمانوں نے راج پال سے اس متنازعہ شر انگیز کتاب کو تلف کرنے کا مطالبہ کیا لیکن راج پال نے مسلمانوں کی بات ماننے سے صاف انکار کر دیا۔عدالت نے بھی مسلمانوں کا ساتھ نہ دیا۔ مسلمانوں کو اس بات کا بہت دُکھ ، رنج اور صدمہ تھا۔ آخر کار مسلمانوں نے راج پال سے خود ہی بدلہ لینے کا فیصلہ کیا۔راج پال پر پہلا حملہ’’ غازی عبدالعزیز‘‘ نے کیا جو کوہاٹ سے آیا تھا۔
دوسرا حملہ لاہور کے شیر فروش’’ خدابخش‘‘ نے کیامگر یہ ملعون اور گستاخِ رسولﷺ دونوں حملوں سے بچ گیا۔آخرکار6اپریل 1929بروز ہفتہ غازی علم دینؒ نے کستاخ رسولﷺ کو جہنم رسید کرنے کا فیصلہ کیا۔آپؒ نے انارکلی بازار سے ایک تیز دھار چھرا خریدا۔راج پال کی دکان لاہور میں قطب الدین ایبک کے مزار کے نزدیک ہسپتال روڈ پر واقع تھی۔دکان پر پہنچ کر غازی علم دینؒ نے کستاخ رسولﷺ راج پال کو للکارا اور ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کر دیا۔
اس طرح ایک سچے عاشقِ رسولﷺ کے ہاتھوں ایک کستاخ رسولﷺ اپنے انجام کو پہنچ گیا۔6اپریل 1929 سے قبل غازی علم دین ایک عام آدمی تھا مگر جسے رشہ داروں اور چند دوست احباب کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا مگر6اپریل 1929 کو جب ایک ملون کو اس کے انجام تک پہنچایا تو اس دن سے لے کر آج تک ہر مسلمان کے دل کی دھڑکن بن گیا اور تا قیامت مسلمانوں کی آنکھوں کا تارا بنے رہے گا۔
غازی علم دین پر حکومتِ برطانیہ نے مقدمہ چلایا اور پھانسی کا حکم دیا۔ جس کو آپ نے بے حد خوشی سے قبول کر لیا۔ آپ نے شہادت سے پہلے دو رکعت نمازِ شکرانہ ادا کی اور خوشی خوشی شہادت کا رتبہ حاصل کیا۔31 اکتوبر1929 آپؒ کو میانوالی جیل میں پھانسی دے دی گئی ا ور جیل کے قبرستان میں ہی دفن کر دیا گیا مگر مسلمانوں نے اس عاشقِ رسولﷺ کی میت کو بڑی مشکل اور جدو جہد کے بعد حکومت سے واپس وصول کیا اور غازی علم دین شہید ؒ کی وصیت کے مطابق آپ کو بڑی عزت و تکریم اور شان و شوکت کے ساتھ لاہور میں چوبرجی کے نزدیک میانی صاحب کے قبرستان میں دفن کیا۔ غازی علم دین شہیدؒ ہمارے دلوں میں آج بھی زندہ ہے۔ اللہ ہم سب کو غازی علم دین شہیدؒ جیسا عاشقِ رسولﷺ بننے کی توفیق دے آمین۔