غازی صلاح الدین ایک فرض شناس پولیس آفیسر

Police

Police

معاشرتی بگاڑ تب بڑھتا ہے جب پولیس اور عوام کے درمیان عدم اعتماد کی فضا کا وجود جنم لیتا ہے ایک اچھے اور فرض شناس پولیس آفیسر کی تعریف یہ ہے کہ عوام کی نفسیات کی نبض پر اُس کی انگلیاں ہوتی ہیں ایک اچھے پولیس آفیسر کا مارل کریکٹر بھی اُس کی شخصیت کی تعمیر کرتا ہے میری تحریروں میں یہ بہت کم ہوا ہے کہ میں نے پولیس کیلئے کبھی تعریفی کالم لکھا ہو ہاں پولیس کے اندر کچھ کردار اپنے تشخص کو خود بخود اُجاگر کرتے ہیں حالات کے کینوس پر اُن کا کردار واضح ہوتا چلا جاتا ہے۔

میں یہ تحریر اس لیئے بھی نہیں لکھ رہا کہ صحافت کے پس منظر میں میرا کوئی گورکھ دھندہ ہے اور میں اس دونمبری سے بچنے کی خاطر کسی پولیس آفیسر کی تعریف و توصیف میں خوبصورت الفاظ کا سہارا لوں یا ایسا ہو کہ ناجائز پروٹو کول کے چکر میں کسی ایماندار اور فرض شناس پولیس آفیسر کے اُجلے کردار کو مسخ کردوں ایسا بالکل نہیں پولیس کے کچھ کردارمعاشروں میں آئیڈیالوجی کو جنم دیتے ہیں غازی صلاح الدین ایسا ہی ہے نوجوانی میںکردار کی حفاظت بہت کم لوگ کرتے ہیں مگر غازی صلاح الدین نے اپنے کردار ،فرض شناسی اور ایماندری سے یہ بات ثابت کی ہے کہ قوموں کی زندگی میں پولیس کا کردار کس قدر اہم اور بنیادی نوعیت کا ہوتا ہے۔

Ghazi Salahudin

Ghazi Salahudin

ہاں البتہصحافت کے نام پر اُن کاروباری افراد کا کردار قابل نفرین ہے جو غازی صلاح الدین کے اصلاحی کردار پر اپنی خود ساختہ دانشوری کی سنگ باری کرنے کی ناکام سعی میں لگے ہوئے ہیں غازی صلاح الدین نسل نو کی کردار سازی میں مصروف عمل ہے سچائی کی نفی جھوٹ سے نہیں کی جاسکتی ایک اسلامی دانشوری میںیہ اصلاحی قدم نہیں تو اور کیا ہے کہ برائی کے اڈوں کی طرف بڑھنے والے قدموں کو روکنے کیلئے ان اڈوں کا وجود فنا کر دیا جائے جنوبی پنجاب میں ایک ماہ کے دوران 17معصوم بچوں کو جنسیت کی بھینٹ چڑھایا گیا
کیا یہ حقیقت نہیں کہ اہل اقتدار نے پولیس کو ہمیشہ اپنی دسترس میں رکھنے کی کاوشیں کیں تاریخ کے صفحات پر وطن عزیز میں سب سے پہلے ریاستی جبرو تشدد کے ذریعے اپنے مخالفین کو خوفزدہ کرکے دھن ،دھونس اور دھاندلی کا بازار گرم کرنے کی روایت کا آغاز 70ء کی دہائی کے ساتھ ہوا تھا۔

وطن عزیز میں سیاست جس طرح اپنے مقاصد کے حصول کیلئے اقتدار کے دنوں میں پولیس کو استعمال کرتی ہے اس کی مثال دنیا کے کسی بھی مہذب ملک میں نہیں ملتی اور پولیس کو ذاتی مفادات کیلئے استعمال کرنے کی جو روایت پڑی اُس کی شدت ہر دور اقتدار میں اُبھر کر سامنے آتی رہی اور یہ حقیقت ہے بااصول اور دیانت دار پولیس ملازمین نے اگر سیاست کے مقاصد کی آبیاری نہیں کی تو وہ سیاسی انتقام کی زد میں آئے کسی بھی پولیس آفیسر کا شائستہ ،نرم رو ،خلیق اور مہذب کردار ہی معاشرے کی تشکیل کرتا ہے۔

غازی صلاح الدین نے اپنی پیشہ ورانہ مہارت ،ایک روشن دماغ ،ذی عقل کا مظاہرہ کرتے ہوئے عملاً ثابت کیا ہے کہ رشوت اور سفارش دو ایسے معاشرتی ناسور ہیں جو انصاف کا قتل کرتے ہیں اُن کے اس دعوے کی حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ اندرونی نظم و نسق کی بہتری اور استحکام ہی قوموں کو ہر قسم کی جارحیت اور بربادی سے بچا سکتا ہے اور جب کوئی فرد صحیح سمت میں اپنے سفر پر گامزن ہو تو ہمارا معاشرتی رویہ یہ رہا ہے کہ منفی تنقید سے اُس کے رستہ میں رکاوٹ بننے کی کوشش کرتے ہیں یہ چلن اُس حوصلہ افزائی کی نفی ہے جو ایک اچھے رائٹر کا وطیرہ ہوتی ہے۔

ہوا کی وحشتوں سے بے خبر ریت سے کھیلنے کی ضد کے مترادف ہے محب وطن لوگ وطن کی فضائوں سے ایک خاص قسم کی جذباتی وابستگی رکھتے ہیں جس کا علم اکثر اوقات ہم لکھنے والوں کو بھی نہیں ہوتا ایک طرح سے ہم بے خبر ہوتے ہیں میں غازی صلاح الدین کو یہ داد بھی دیتا ہوں کہ وہ مثبت تنقید کو خندہ پیشانی سے سنتا ہے اور اس کی اُسے خوشی ہوتی ہے کہ اس میں اصلاحی پہلو پنہاں ہوتا ہے معاشروں میں کسی کاقد اُس کا رویہ بڑا کرتا ہے نہ کہ ایک بڑا عہدہ یقیناً ایک فرض شناس پولیس آفیسر کو اس پس منظر کا کھوج لگانے کی اشد ضرورت ہوتی ہے کہ معاشرے کو جرائم کی آگ میں جلنے سے بچانے کیلئے کیا عوامل کارفرما ہیں ان عوامل کا پتہ چلانا اور اور اُن کا حل نکالنا بھی اُس کے فرائض میں شامل ہوتا ہے۔

M.-R.-Malik

M.-R.-Malik

تحریر: ایم آر ملک