تحریر : سید کمال حسین شاہ راہداریاں کسی ملک کے اندر یا ملکوں کے مابین بنائی جا سکتی ہیں۔اقتصادی راہداریاں بسا اوقات پیوستہ ہیکل اساسی مثلاً شاہراہوں، آہنراہوں اور بندرگاہوں پر مشتمل ہوتی ہیں اور شہروں یا ملکوں کو بھی ملاتی ہیں۔ یہ راہداریاں اس لئے بھی بنائی جا سکتی ہیں تاکہ صنعتی مراکز، زیادہ طلب و رسد والے علاقوں اور اِضافی قدری اشیاء کے صانعین میں رابطہ بنایا جاسکے ۔یہ اِصطلاح سب سے پہلے ایشیائی ترقیاتی بینک نے 1998ء میں استعمال کی۔عہدِ قدیم کے ان تجارتی راستوں کو مجموعی طور پر شاہراہ ریشم کہا جاتا ہے جو چین کو ایشیائے کوچک اور بحیرہ روم کے ممالک سے ملاتے ہیں۔ یہ گزر گاہیں کل 8 ہزار کلو میٹر 5 ہزار میل پر پھیلی ہوئی تھیں۔ شاہراہ ریشم کی تجارت چین، مصر، بین النہرین، فارس، بر صغیر اور روم کی تہذیبوں کی ترقی کا اہم ترین عنصر تھی اور جدید دنیا کی تعمیر میں اس کا بنیادی کردار رہا ہے۔
شاہراہ ریشم کی اصطلاح پہلی بار جرمن جغرافیہ دان فرڈیننڈ وون رچٹوفن نے 1877ء میں استعمال کی تھی۔ اب یہ اصطلاح پاکستان اور چین کے درمیان زمینی گزر گاہ شاہراہ قراقرم کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے ۔ پاکستان کو چین سے ملانے کا زمینی ذریعہ ہے ۔ اسے قراقرم ہائی وے اور شاہراہ ریشم بھی کہتے ہیں۔ یہ دنیا کے عظیم پہاڑی سلسلوں قراقرم اور ہمالیہ کو عبور کرتی ہے ۔ درہ خنجراب کے مقام پر سطح سمندر سے اس کی بلندی 4693 میٹر ہے ۔ یہ چین کے صوبہ سنکیانگ کو پاکستان کے شمالی علاقوں سے ملاتی ہے ۔ یہ دنیا کی بلند ترین بین الاقوامی شاہراہ ہے ۔دنیا میں ہمیشہ سے وسائل کی جنگ رہی ہے ۔ وسائل کی ترسیل تجارتی راستوں سے ہوتی ہے اس لئے تجارتی راستے ہمیشہ دفاعی اہمیت کی حامل رہے ہیں ۔ اس لئے اس شاہراہ ریشم کو سیاسی، عسکری اور سٹریٹیجک راہداری بھی کہا جاسکتا ہے۔
یہ بیس سال کے عرصے میں 1986ء مکمل ہوئی اسے پاکستان اور چین نے مل کر بنایا ہے ۔ اس کو تعمیر کرتے ہوئے 810 پاکستانیوں اور 82 چینیوں نے اپنی جان دے دی۔ اس کی لمبائی 1300 کلومیٹر ہے ۔ یہ چینی شہر کاشغر سے شروع ہوتی ہے ۔ پھر ہنزہ، نگر، گلگت، چلاس، داسو، بشام، مانسہرہ، ایبٹ آباد, ہری پورہزارہ سے ہوتی ہوئی حسن ابدال کے مقام پر جی ٹی روڈ سے ملتی ہے ۔دریائے سندھ، دریائے گلگت، دریائے ہنزہ، نانگا پربت اور راکاپوشی اس کے ساتھ ساتھ واقع ہیں۔شاہراہ قراقرم کے مشکل پہاڑی علاقے میں بنائی گئی ہے اس لئے اسے دنیا کا آٹھواں عجوبہ بھی کہتے ہیں۔پاکستان کے شمال میں واقع گلگت بلتستان پاکـچین اقتصادی راہداری منصوبے (سی پیک) کے حوالے سے ایک دروازے کی حیثیت رکھتا ہے اس کا کل رقبہ 72971مربع کلومیٹر ہے ‘ اردو کے علاوہ بلتی اور شینا یہاں کی مشہور زبانیں ہیں۔ گلگت و بلتستان کا نیا مجوزہ صوبہ دوڈویژنز بلتستان اور گلگت پر مشتمل ہے ۔ اول الذکر ڈویژن سکردو اور گانچے کے اضلاع پر مشتمل ہے جب کہ گلگت ڈویژن گلگت،غذر،دیا میر، استور اورہنزہ نگر کے اضلاع پر مشتمل ہے۔
شمالی علاقہ جات کے شمال مغرب میں افغانستان کی واخان کی پٹی ہے جو پاکستان کو تاجکستان سے الگ کرتی ہے جب کہ شمال مشرق میں چین کے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ کا ایغورکا علاقہ ہے ۔ جنوب مشرق میں مقبوضہ کشمیر، جنوب میں آزاد کشمیر جبکہ مغرب میں صوبہ خیبر پختونخوا واقع ہیں۔ اس خطے میں سات ہزار میٹر سے بلند 500 چوٹیاں واقع ہیں۔ دنیا کے تین بلند ترین اور دشوار گزار پہاڑی سلسلے قراقرم،ہمالیہ اور ہندوکش یہاں آکر ملتے ہیں۔ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو بھی اسی خطے میں واقع ہے ۔ جب کہ دنیا کے تین سب سے بڑے گلیشئیر بھی اسی خطے میں واقع ہیں 46 ارب ڈالر کے اس منصوبے میں چین کے شہر کاشغر سے آنے والے تجارتی ساز و سامان کی پہلی منزل گلگت ہوگی جہاں سے روٹ کے مطابق یہ سامان ملک کے مختلف حصوں سے ہوتا ہوا گوادر منتقل کیا جائے گا، جبکہ اسی طرح گوادر بندر گاہ پر بحری جہازوں سے اترنے والا سامان بھی اسی روٹ کے ذریعے سے چین لے جایا جائے گا۔سال 2015میں پاکستانی گوادر پورٹ کی چینی سرکاری کمپنی ( اوورسیز پورٹس ہولڈنگ کمپنی لمیٹڈ ) کو40سالہ لیز اور چین پاک اقتصادی راہداری معاہدہ (CPEC)اسی سلسلے کی ایک تاریخ ساز کڑی ہے ۔ مذکورہ منصوبہ کے تحت پاکستان میں چین چھیالیس بلین ڈالر کی سرمایہ کاری توانائی ، بنیادی ترقی(انفراسٹرکچر) اور دیگر شعبوں میں کریگا جس میں کاشغر (چین) سے گوادرپورٹ(پاکستان) تک مواصلات (شاہرات، ریل) کے ذریعے چین عالمی منڈیوں میں آسان ، تیزرو اور سستی رسائی حاصل کر لے گا اور جس سے نہ صرف پاکستان و چین بلکہ پورا جنوبی ایشیاء ایک نئے معاشی دور میں داخل ہو جائے گا جس کے اثرات بلا شبہ وسط ایشیا اور مشرق وسطیٰ سے لیکر پوری دنیا کے معاشی حالات، اداروں اور کمپنیوں پر پڑیں گے ۔ موجودہ دور کی بے ہنگم اور بے اصول اقتصادی دوڑ میں چین کی اس معاشی چھلانگ اوتزویراتی(سٹریٹیجک) اہمیت نے خطے میں اسکے مدمقابل بھارت کیساتھ اسکے مغربی اتحادیوں کو بھی عالمی معاشی دوڑ میں پریشان کر دیا ہے۔
پاکستان میں معاشی انقلاب برپا کرنے والا یہ منصوبہ جہاں ایک شاہراہ ریشم کو جنم دے گا جو تجارت کو محفوظ، آسان اور مختصر بنائے گی، وہیں اس کے ساتھ ہی گوادر کو ایک انتہائی اہم مقام میں تبدیل کر دے گا جس کی جستجو ترقی یافتہ ممالک کرتے ہیں۔اس منصوبے کا 500 کلومیٹر سڑک جی بی سے گزرے گا اس میگا پروجیکٹ کو تمام صوبوں کے عوام ملکی ترقی کا اہم ذریعہ ہے ۔ شاہراہ ریشم کا ایک قابل ذکر حصہ گلگت بلتستان سے گزرتا ہے ۔ گلگت بلتستان کئی حوالوں سے جغرافیائی طور پر پہلے ہی عالمی اہمیت رکھتا ہے مگر اس کی خاص اہمیت شاہراہ ریشم اور موجودہ اقتصادی راہداری کی وجہ سے ہے ۔ پرانے زمانے میں سفر دریا کے ساتھ ساتھ کیا جاتا تھا اس لحاظ سے یہ علاقہ موزوں تھا دوسرا اس روٹ کو تجارت کے لئے اس لئے بھی استعال کیا جاتا تھا کیونکہ پہاڑوں کی وجہ سے یہ محفوظ تصور ہوتا تھا اور لوٹ مار کا امکان کم رہتا تھا۔ اس کے باوجود اس روٹ پر تجارتی کافلوں کو لُو ٹا جاتاتھا۔ جس کی بنیاد پرمقامی سطح پر چھوٹی چھوٹی جنگیں ہوتی رہتی تھیں۔ مگر اس روٹ پر جب چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم ہوگئیں تو ان ریاستوں کے حکمران وظیفے کے عوض اس روٹ کی حفاظت کرتے تھے۔
ہم زیادہ پرانی تاریخ پر گئے بغیر صرف گذشتہ ڈیڑھ سو سال کی تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمیں اندازہ ہوجائے گا کہ اس روٹ کی کیا اہمیت تھی۔۔46 ارب ڈالر کے اس منصوبے میں چین کے شہر کاشغر سے آنے والے تجارتی ساز و سامان کی پہلی منزل گلگت ہوگی جہاں سے روٹ کے مطابق یہ سامان ملک کے مختلف حصوں سے ہوتا ہوا گوادر منتقل کیا جائے گا، جبکہ اسی طرح گوادر بندر گاہ پر بحری جہازوں سے اترنے والا سامان بھی اسی روٹ کے ذریعے سے چین لے جایا جائے گا۔پاکـچین اقتصادی راہداری منصوبے سے گلگت بلتستان میں ناصرف معاشی ترقی ہوگی، بلکہ یہ منصوبہ یہاں مختلف کاروباری شعبوں کو وسعت دینے میں بھی مددگار ثابت ہوسکتا ہے ۔گلگت کے عوام کو امید ہے کہ جب یہاں کی مقامی پیداوار عالمی مارکیٹ میں جائے گی تو اس سے انہیں کافی حد تک فائدہ ہوگا۔یہاں کی نوجوان نسل کے لیے ایک ‘دروازہ ہے جس سے لوگوں کو ملازمت کے مواقع میسر آئیں گے اور جب چین کے تعاون سے یہاں پر یونیورسٹیز اور اسکول بنیں گے تو تعلیمی شعبے میں کافی حد تک بہتری آئے گی اور نوجوانوں کو چین میں جاکر کر تعلیم حاصل کرنے کا بھی موقع مل سکے گا۔سی پیک منصوبے سے عملی طور پر فائدے ہونا شروع ہوچکے ہیں اور شاہراہ قراقرم پر لوگ بہت آرام و سکون کے ساتھ سفر کرسکتے ہیں جوکہ پہلے 8 سے 10 گھنٹوں میں مکمل ہوتا ہے۔اس منصوبے سے پاکستان کو نہ صرف دنیا میں اعلیٰ مقام ملے گا بلکہ ٹیکس کی مد میں ہونے والی آمدن پاکستان کی معیشت پر شاندار اثرات بھی ڈالے گی۔پاکستان میں معاشی انقلاب برپا کرنے والا یہ منصوبہ جہاں ایک شاہراہ ریشم کو جنم دے گا جو تجارت کو محفوظ، آسان اور مختصر بنائے گی، وہیں اس کے ساتھ ہی گوادر کو ایک انتہائی اہم مقام میں تبدیل کر دے گا جس کی جستجو ترقی یافتہ ممالک کرتے ہیں۔اس منصوبے کو پاکستان کی قسمت بدلنے کے حوالے سے ایک ‘گیم چینجرکے طور پر دیکھا جارہا ہے ۔سی پیک کے تحت گوادر میں ہی ایکسپریس وے کی تعمیر سمیت بلوچستان میں توانائی کا بھی ایک بڑا منصوبہ شامل ہے، جبکہ کئی منصوبوں پر ملک کے دیگر صوبوں میں کام کیا جائے گا۔