گلگت بلتستان کے عوام نے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے بیانیے کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے آنے والے دنوں کا بھی تعین کردیا ہے پیپلز پارٹی کا پنجاب سے پہلے ہی صفایا ہوچکا ہے اب جی بی سے بھی صفایا ہو گیا ہے الیکشن سے قبل جب مریم نواز شریف اور بلاول بھٹو زرداری مختلف جلسوں میں گھن گرج رہے تھے تو میں انکی باتوں پر حیران ہوتا تھا کہ وہ لوگ جو ہم سے تعلیم میں،شعور میں اور سمجھداری میں بہت آگے ہیں وہ ان کی باتوں میں کیسے آئیں گے جب بلاول بھٹو کہتے تھے کہ ہم الیکشن جیت کر جی بی کو سندھ بنا دیں جی ہاں وہی سندھ جہاں کسی کی عزت محفوظ ہے اور نہ ہی کسی کا سرمایہ جبکہ گلگت بلتستان میں آپ پوری آزادی سے گھومیں کہیں کسی جگہ چوری کا نام ونشان نہیں دن رات کے کسی بھی پہر جہاں مرضی چلے جائیں کوئی آپ کو روک کر تنگ نہیں کریگا۔
پولیس کا رویہ انتہائی دوستانہ اللہ تعالی نے اس علاقے کو جتنا خوبصورت بنا یا ہے اس سے زیادہ خوبصورت اور خوبصیرت یہاں کے لوگ ہیں سڑک پر چلتے چلتے جہاں دل کرے رک جائیں اور اپنی مرضی سے چیری اورخوبانی کھائیں کوئی آپ کو روکے گا نہیں بلکہ وہاں کے معصوم بچے اپنے گھروں سے پلیٹ میں رکھ کر فروٹ آپ کو پیش کرینگے جہاں اتنے خوبصورت لوگ ہونگے وہ کیسے ان لٹیروں کے دام میں پھنسیں گے گلگت بلتستان کی طرح سندھ اور پنجاب کے لوگ بھی باشعور ہوجائیں تو ہم دنیا میں سر اٹھا کر چلنا شروع کردینگے گلگت بلتستان کے حالیہ الیکشن سے یہ واضح ہوچکا ہے کہ اب وہاں پر کسی کا کوئی بیانیہ نہیں چلے گا صرف اور صرف پاکستان کا بیانیہ ہی چلے گا اور اسی سلسلہ میں معاون خصوصی وزیراعلی پنجاب فردوس عاشق اعوان نے بھی کہا تھا کہ عوام ووٹ کی پرچی کے ذریعے نئے گلگت بلتستان کی بنیاد رکھنے جارہے ہیں۔ فردوس عاشق اعوان نے ٹویٹر پیغام میں کہا کہ احساس محرومی کا خاتمہ، اختیارات کی نچلی سطح پر حکومت کی منتقلی اولین ترجیح ہے۔
حقدار تک اس کا حق پہنچاناا ولین ترجیح ہو گی شفاف انتخابات گلگت بلتستان کی ترقی اور خوشحالی پر مہرثبت کریں گے اور اس سلسلہ میں چیف الیکشن کمشنر راجہ شہباز خان کا کہنا بھی تھا کہ گلگت بلتستان میں ہونے والے انتخابات آزادانہ، منصفانہ، پرامن اور شفاف تھے گلگت کے کچھ علاقوں میں بارش اور برفباری ہوئی ہے جس کی وجہ سے نتائج آنے میں کچھ وقت لگے گا اور پولنگ ایجنٹس کے سامنے نتائج تیار ہوں گے اس موقعہ پر انکا کہنا تھا کہ غیر ذمہ دارانہ اور غیر ضروری بیانات سے گریز کیا جائے۔اکثر الیکشن کے بعد جب کوئی امیدوار یا پارٹی ہار جاتی ہے تو وہ دھاندلی کا شور شروع کردیتی ہے میں سمجھتا ہوں کہ گلگت بلتستان میں ہونے والے انتخابات واقعی صاف شفاف تھے اور پولنگ بھی پرامن ماحول میں ہوئی جسکا سہرا وہاں کی انتظامیہ اور الیکشن کمیشن کے سر جاتا ہے گلگت بلتستان میں عام انتخابات کے لیے ووٹنگ کے دوران عوام کا جوش و خروش دیکھنے کے لائق تھا۔
لوگ برف باری اور منفی 6 سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں بھی ووٹ ڈالنے کیلیے نکلے ہوئے تھے غذر میں پھنڈر میں برف باری کے دوران پولنگ جاری رہا، جب کہ پولنگ کے عمل کو محفوظ طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے پولیس عملہ بھی چوکس ہر جگہ موجود تھا گلگت میں جوان تو جوان بوڑھے بزرگ بھی جوش و خروش سے اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنے کے لیے پولنگ اسٹیشنز پہنچے ہوئے تھے جس سے مقامی لوگوں میں ووٹ کے حق کے استعمال کا ولولہ ظاہر ہوتا ہے۔چند علاقوں میں پولنگ کا عمل تاخیر کا بھی شکار ہو ا جن میں چلاس، دیامر 16حلقہ ون میں تھک لوشی میں پولنگ تاخیر کا شکار ہوئی اسکردو میں عام لوگوں کے ساتھ مریضوں کو بھی ووٹ کاسٹ کرنے پولنگ اسٹیشنز لایا گیا۔گلگت بلتستان کے الیکشن نے واضح کردیا ہے کہ اب کشمیری بھی آنے والے الیکشن میں اسی جوش وجذبہ سے الیکشن میں حصہ لیں گے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو انہوں نے بھی آزما لیا گلگت بلتستان کی طرح پی ٹی آئی کو ووٹ دیکر کامیاب کریں تاکہ ملک میں ترقی اور خوشحالی کا جو سلسلہ شروع ہوچکا ہے وہ رکنے نہ پائے رہی بات گلگت بلتستان کی وہاں کی عوام نے بلاول اور نواز شریف کی سیاست کا جنازہ نکال دیا ہے انکا بیانیہ انکے منہ پر دے مارا اس وقت تک کی صورتحال کے مطابق گلگت بلتستان کے انتخابات میں تمام نشستوں کے غیر سرکاری نتائج موصول ہو گئے۔
تحریک انصاف 9 نشستوں کے ساتھ سرفہرست ہے جب کہ پیپلز پارٹی 4 نشستوں کے ساتھ دوسرے اور (ن) لیگ دو نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے، 7 نشستوں پر آزاد امیدوار فتح یاب ہوگئے گلگت بلتستان کی 24 میں سے 23 نشستوں کے لیے ووٹنگ کا عمل صبح 8 بجے شروع ہوا جو شام 5 بجے تک پر امن طریقے سے بلاتعطل جاری رہا۔ سرد موسم میں بھی لوگ اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے لیے قطار میں کھڑے نظر آئے۔گلگت بلتستان اسمبلی کے رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 7 لاکھ 45 ہزار 361 ہے۔ مرد ووٹرز کی تعداد 4 لاکھ 5 ہزار 63 اور خواتین ووٹرز کی تعداد 3 لاکھ 39 ہزار 998 ہے۔
جبکہ 1 لاکھ 26 ہزار 997 ووٹرز کو پہلی مرتبہ اپنا حق رائے دہی استعمال کرنا تھا۔ گلگت بلتستان کی 23 نشستوں پر ووٹنگ کے لیے 1 ہزار 260 پولنگ اسٹیشن بنائے گئے تھے۔ مردوں کے پولنگ اسٹیشن کی تعداد 503، خواتین کے پولنگ اسٹیشنز کی تعداد 395 جبکہ مرد و خواتین ووٹرز کے مشترکہ پولنگ اسٹیشنز کی تعداد 362 تھی۔ گلگت بلتستان کے انتخابات کے دوران حساس پولنگ اسٹیشنز کی تعداد 297 جبکہ 280 کو انتہائی حساس قرار دیا گیا تھا۔گلگت بلتستان اسمبلی کے الیکشن کی سیکورٹی کے لیے 13 ہزار 481 اہلکار تعینات ہیں، جن میں پولیس، رینجرز اور جی بی اسکاو ٹس شامل تھے۔