گلگت بلتستان کے مسئلے پر ہمارا مؤقف

Gilgit Baltistan

Gilgit Baltistan

تحریر: ثمینہ راجہ، جموں و کشمیر
گلگت بلتستان کے مسئلے پر ہمیں ایسا مؤقف اپنانے کی ضرورت ہے جو ہمارے درمیان غلط فہمیاں پیدا نہ کرے اور ہمیں ایک دوسرے کے قریب کرے۔ دراصل شروع دن سے ہم ریاست جموں، کشمیر و تبتہا کی تقسیم کے تناظر میں غلط، مبہم، غیر منطقی اور غیر عقلی مؤقف اپنائے ہوئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہم سات دہائیاں گزرنے کے باوجود منزل کی جانب ایک قدم کی بھی پیش رفت نہیں کر پائے۔ ہم ایک فضول دائرے میں چکر کاٹ رہے ہیں جس کی کوئی منزل نہیں ہے۔

ہماری مثال کولہو کے اس بیل کے جیسی ہے جو آنکھوں پر پٹی باندہے سارا دن چلتا رہتا ہے اور اپنے تئیں سمجھتا ہے کہ اس نے سارے جہان کا سفر کر لیا ہے۔ مگر حقیقتًا وہ بیل کوئی سفر نہیں کرتا محض اپنے مالک کے کام میں جتا ہوتا ہے۔

Jammu and Kashmir

Jammu and Kashmir

ہم بھی بالکل یہی کچھ کرتے آ رہے ہیں۔ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ گلگت بلتستان “ریاست جموں و کشمیر” کا حصہ تھا؛ اور یہ کہ گلگت بلتستان “کشمیر” کا حصہ نہیں تھا- ہم 1947 سے گلگت بلتستان کو کشمیر کا حصہ بنانے پر زور دیتے آ رہے ہیں اور اس ریاست جموں و کشمیر کے وجود اور بقاء کے انکاری رہے ہیں جس کا گلگت بلتستان حصہ تھا۔ ہمارا مؤقف انتہائی کمزور اور غیر منطقی رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم گلگت بلتستان کے عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

پہلے ہم نے انتظامی امور کی آڑ میں گلگت بلتستان کو پاکستان کی جھولی میں ڈال دیا اور پھر نعرے مارنے شروع کر دئیے کہ گلگت بلتستان ہمارا ہے۔

پاکستان نے گلگت بلتستان کے عوام کو جس بدترین نوآبادیاتی نظام میں جکڑ کر رکھا اور جس بھیانک انداز میں عوام کے معاشی، سیاسی اور انسانی حقوق غصب کئیے اس صورتحال نے گلگت بلتستان کے عوام کے دلوں میں ہمارے لئیے نفرت اور سیاسی بعد پیدا کر دیا – گلگت بلتستان کے عوام بجا طور پر اپنے تمام مصائب اور مسائل کی وجہ آزادکشمیر کے لوگوں کو قرار دیتے ہیں۔

ہم محض رسمی طور پر گلگت بلتستان کے علاقوں کو اپنا حصہ قرار دیتے رہے اور کبھی پلٹ کر ان کی خبر نہیں لی کہ وہ کس حال میں زندە ہیں – اوپر سے جس بنیاد کے باعث ان کا ہمارے ساتھ کوئی ناطہ تھا ہم نے اس بنیاد کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔

گلگت بلتستان کے ساتھ ہمارا تعلق صرف ڈوگرہ دور حکومت کی وجہ سے بنتا ہے مگر ہم ڈوگرہ حکومت کے وجود اور اقدامات کو تسلیم نہیں کرتے اور پھر گلگت بلتستان کو اپنا حصہ بھی قرار دیتے ہیں – یہ ایک ہی سانس میں متضاد باتیں کرنے کا عمل ہے – جب ڈوگرہ راج ہی غلط تھا تو اس کے اقدام کی بنیاد پر ہمارا حصہ بننے والے گلگت بلتستان کو ہم کیسے اپنا حصہ قرار دیتے ہیں اور ہماری اس بات کو کوئی کیسے تسلیم کرے گا ؟

انہی تضادات کے باعث گلگت بلتستان کے عوام نے ہمارے موقف کو مسترد کر رکھا ہے – پھر ایک اور دلچسپ پہلو ہے- ہم گلگت بلتستان کو اپنے اندر شامل کر کے پھر خود پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں – کیا گلگت بلتستان کے عوام پاگل ہیں کہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کے لئیے پہلے ہمارے ساتھ شامل ہوں گے۔

Pakistan

Pakistan

وہ خود براہ راست الحاق کیوں نہیں کر لیں گے ؟ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام اسلام آباد جانے کے لئیے پہلے مظفرآباد یا سرینگر کیوں جائیں گے؟ وہ سیدہے اسلام آباد کیوں نہ چلے جائیں؟ بیچ میں ایک پوسٹ آفس وہ کیوں رکھیں گے؟میرا عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنے غلط مؤقف کے باعث گلگت بلتستان کے عوام کو اپنے آپ سے کاٹ چکے ہیں -. میرے خیال میں ہمیں گلگت بلتستان کے عوام کے لئیے انکی اپنی آزاد نمائندہ حکومت کے قیام کا مطالبہ کرنا چاہئیے۔

ہمیں انکے حقوق اور انکی آزادی کی بات کرنی چاہئیے اور ساتھ ہی بتانا چاہئیے کہ ان کے مسئلے کا حتمی حل ہمارے مسئلے کے حتمی حل کے ساتھ جڑا ہوا یے اور اس مشترکہ حل کے لئیے ہمیں مربوط اور مشترک لائحہ عمل اپنانا چاہئیے اور یہ حل آزادانہ رائے شماری کے ذریعے عوام کو انکے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دینے کی بات ہے۔

اگر ہم ڈوگرہ دور کی ریاست جموں، کشمیر و تبتہا کی وحدت کی بحالی کا مطالبہ کریں اور تمام مذاہب اور جغرافیائی اکائیوں کے تشخص کے تحفظ کی ضمانت کی بنیاد پر تمام علاقوں کو اندرونی معاملات میں مکمل خودمختاری دینے کا عہد کریں؛ تب تو ہم گلگت بلتستان، جموں اور لداخ کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ اور متحدہ تحریک کو جنم دے سکتے ہیں لیکن اگر ہم دوقومی نظریے کی بنیاد پر مذہب کا راگ الاپتے رہے۔

ہندوؤں اور غیر مسلموں کو اپنا دشمن قرار دیتے رہے تو پھر گلگت و بلتستان اور جموں و لداخ کبھی بھی ہمارے ساتھ اشتراک کرنے پر آمادہ نہیں ہوں گے اور ایسے حالات میں ہمارے وطن کو تقسیم ہونے سے کوئی نہیں بچا سکے گا -سوچنا، غور کرنا اور تجزیہ کرنا سب کا فرض ہے۔ نتیجہ خود آپ کے سامنے آ جائے گا۔

Sameena Raja

Sameena Raja

تحریر: ثمینہ راجہ، جموں و کشمیر