یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال سوا کروڑ لڑکیاں کم عمری میں ہی بیاہ دی جاتی ہیں۔ کم عمری کی شادی سے جہاں صحت کے گھمبیر مسائل جنم لیتے ہیں تو دوسری جانب کمر عمر لڑکیوں کی شادی اور پھر ماں بننے کے بعد وہ تعلیم سے محروم ہوجاتی ہے۔ایک اندازے کے مطابق کم عمر مائیں تعلیمی اداروں سے الگ ہوجاتی ہیں، اس کا سب سے بڑا نقصان آنے والی نسل پر براہ راست پڑتا ہے اور کم عمر مائیں اپنے بچوں پر توجہ ہی نہیں دی پاتی، نوزائیدہ بچوں کا قبل ازوقت پیدا ہونا، کم وزن، ذہن سازی، زبان گوہی اور سماجی جذبات کے مسائل کی وجہ سے فرسٹریشن اور خانگی مسائل سے نہ صرف کم عمر بچی(ماں) متاثر ہوتی ہے بلکہ اس کے بچوں کو نفسیاتی و سماجی کا مسلسل سامنا رہتا ہے۔دنیا بھر کی طرح پاکستان کے بیشتر علاقوں میں کم عمری کی شادیوں کا رواج پایا جاتا ہے۔ کم عمری (نابلوغت) کی شادی کو جنسی استحصال بھی قرار دیا جاتا ہے کیونکہ معاشرتی دباؤ، فرسودہ خاندانی روایات و نام نہاد ثقافتی ڈھونگ کو جواز بنا کر کم عمر لڑکیوں کی پوری زندگی داؤ پر لگا دی جاتی ہے۔صرف پاکستان میں ڈھائی کروڑ بچے تعلیم کے حصول کے لئے اسکول نہیں جاتے، اس اَمر سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ معاشرتی مسائل بڑھتی آبادی کے ساتھ دشوار گذار ہوتے جا رہے ہیں۔ز
دین اسلام نے بنی نوع انسان کو حقوق انسانی کا آفاقی نظام و آئین بصورت قرآن کریم دیا۔ اسلام نے انہیں وہ حق دیا جو آج تک دنیا کا کوئی دوسرا نظام نہیں دے سکا۔ آج بھی یورپ، مغرب میں خواتین کو حقوق کے نام پر بے راہ روی کا شکار بنا کر ان کے حقوق غضب کئے جاتے ہیں۔خود ساختہ آزادی کے نام پر جنسی بے رواروی اور جنسی تعلیم کو شتر بے مہار کی طرح اس طرح کھلا چھوڑ دیا گیا کہ اسکول جانے والی لاکھوں بچیوں کی عزت و ناموس تار تار ہوتی رہیں، ایک طویل فہرست و اخلاقی انحطاط کے تفصیل دنیا کے سامنے ہے کہ کم عمر لڑکیوں کو عدم تحفظ کا سب سے بڑا مسئلہ خود مغربی اقدار سے درپیش ہے۔
ترقی پذیر ممالک میں غربت و مہنگائی کی وجہ سے معاشرتی مسائل موجود ہیں، لیکن جس تباہی سے اس وقت مغربی اقدار شکار ہے، مسلم اکثریتی ممالک سمیت ترقی پزیر مملکتوں کا اس کا تقابل نہیں کرنا چاہیے۔ یہ ضرور ہے کہ اگر ثقافتی و سماجی اقدار کو تحفظ فراہم ہو جائے تو اُن خاندانوں میں شعور لایا جاسکتا ہے جہاں کم عمر لڑکیوں کو خاندانی روایات کا سامنا ہے۔
عمومی طور پر زیادہ تر واقعات کی رپورٹنگ ایسے علاقوں سے آتی ہے جہاں روایتی طور پر خواتین کو جائیداد میں حصے کا حق نہیں دیا جاتا، کچھ قبیح رسموں کی وجہ سے لڑکیوں کو بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ دیہاتوں یا شہروں میں لڑکیوں کو تعلیم سے دوری رکھنے میں کرپٹ سرکاری اداروں و صاحب اختیار کا قصور زیادہ ہے، جو نچلی سطح پر ایسے تعلیمی اداروں کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے، جہاں بچیوں کو دینی و دنیاوی تعلیم سے بہرہ مند کیا جاسکے۔
کم عمر لڑکیوں کے مسائل، ان کے والدین کے لئے بھی ایک چیلنج رکھتے،جنہوں نے کچھ ایسا ماحول ورثے میں پایا،جس کے باعث گنجلگ مسائل حل ہونے کے بجائے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔مغربی اقدار کے مقابلے میں مشرقی اقدار بالخصوص اسلامی روایات سے آگاہی فراہم کرنے کے بجائے فروعی معاملات کو ایشو بنا کر پورے معاشرتی مسائل کا استعارہ سمجھنا، عام غلط بیانیہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
اسلامی و مشر قی ماحول میں اُن اقدار کو وقیانوسی قرار دے کر نوجوان نسل کو متنفر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، جو ان کے تحفظ کے لئے ضروری ہیں، انہیں جبر قرار دے کر ایسی رواج کو قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس میں اختیار کے نام پر غلط تشریح سے حقیقی مسائل بھی اختلافات کا شکار ہوجاتے ہیں۔اقوام متحدہ میں خواتین کے حقوق کے عالمی دن کے موقع پر کم عمر لڑکیوں کے مسائل اجاگر کرنے کی ضرورت ہی اس لئے محسوس ہوئی کیونکہ نوجوان نسل، مستقبل میں اپنے تحفظ و حقوق سے درست آگاہی سے محروم کئے جا رہے تھے۔حقوقِ نسواں کے مطالبہ نے انیسویں صدی کی حقوق نسواں تحریک اور بیسویں صدی کی تحریکِ نسائیت کو بنیاد فراہم کی۔مغرب میں عورت کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے ایک طویل اور جاں گسل جدوجہد سے گزرنا پڑا۔
جنوبی ایشیا میں پاکستان، بھارت سمیت دیگر ممالک میں کم عمر بچیوں کو سماجی مسائل ہیں لیکن اس کی اصل وجوہ میں غربت اور سماجی ناہمواری و ریاستی ذمے داری کا پورا نہ ہونا اہم سبب قرار دیا جاسکتا ہے۔بنیادی طور پر تعلیم ایک ایسا ذریعہ ہے جسے معاشرے میں مثبت تبدیلی کے لئے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو گھریلو صنعت کے فروغ کے لئے خصوصی اقدامات کرنے کی جانب توجہ دینا ہوگی، جس سے خواتین اور کم عمر بچیاں مالی مشکلات کا شکار ہونے کے بجائے ایک ایسے ماحول میں تعمیری سوچ کے ساتھ آگے بڑھیں جہاں ان کے حقوق دہلیز پر مل سکیں۔ قدیم و فرسودہ روایات کے تحت ناپسندیدہ اقدامات کا ہرگز یہ مطلب نہیں لینا چاہیے کہ یہ پورے سماج کا مکروہ چہرہ ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں غربت کی وجہ سے کم عمر بچیوں کے ساتھ اُن کے اپنے اہل خانہ کے سلوک و بے حسی یا مجبوری اسے عوامل کرانے پر مجبور کردیتی ہے، جس سے معاشرتی ناہمواری میں اضافہ ہوتا ہے۔