تحریر: افضال احمد بہو ہمیشہ ایک موٹی سی بات یہ سوچے کہ ساس اگر میری دشمن ہوتی تو مجھے اپنے گھر میں لاتی ہی کیوں؟ جب اس نے مجھے اپنے بیٹے کیلئے پسند کیا اور بہو بنا کر لائی یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ میری دشمن نہیں بلکہ میری محسنہ ہے اس کا میرے اوپر احسان ہے کہ اتنا اچھا بیٹا، ذمہ دار اور سمجھدار، اس کے لئے اس نے مجھے بیوی کے طور پر منتخب کیا اگر وہ نہ کر دیتی تو یہ رشتہ نہ ہو سکتا، اگر یہ رشتہ ہوا ہے تو اس میں ساس کا میرے اوپر احسان ہے جب بہو یہ ذہن لے کر آئے گی کہ ساس میری محسنہ ہے تو یقینا وہ گھر میں آکر اس ساس کو ساس نہیں سمجھے گی بلکہ اپنی ماں سمجھے گی اور ماں کے سمجھنے سے ہی سارے جھگڑے ختم ہو جائیں گے۔ ہمارے گھروں کی بیٹیاں اگر ساس کو ہی اپنی ماں سمجھ لیں تو گھریلو لڑائیوں میں بہت حد تک کمی آجائے گی۔ ساس بہو کی لڑائیوں کا مسئلہ ہمارے معاشرے میں بہت زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔
میں نے بہت سی جگہوں پر دیکھا ہے ساس بوڑھی ہے نند گھر میں نہیں تو بہو گھر میں آتے ہی شیرنی بن جاتی ہے اور ساس میں دلچسپی نہیں لیتی کئی جگہوں پر بہو ساس کو اپنے وقت پر کھانا بھی نہیں دیتی بس خاوند کو قابو کر لیتی ہیں اور ا س کے بعد ساس کو ایک بڑھیا سمجھ کر کمرے کے ایک کونے میں پڑی رہنے دیتی ہیں اور اُس بڑھیا کے بیٹے کو بھی اپنے جال میں کئی حربے استعمال کر کے پھنسا لیتی ہیں یہاں تک کہ بیٹا اپنی ماں سے بے خبر ہو جاتا ہے ارے بارے پہلے ہی اس دور میں ٹینشن بہت ہے گھر آتے ہی بیوی جو کہے گی شوہر مان لیتا ہے بحث کرنے کی سکت نہیں ہوتی سارا دن پیسہ کمانے میں سر کھپا کے گھر آتے ہیں تو بیوی سے کون سر کھپائے۔ شریعت نے ساس اور سسر کو ماں اور باپ کا درجہ دیا ہے۔ آنے والی بہو یہ سوچے کہ اگر اس بوڑھی عورت کی میں خدمت کروں گی تو میں اپنے خاوند کو بھی راضی کروں گی اپنے خدا کو بھی راضی کروں گی اب اس کے لئے اپنی ساس کی خدمت کوئی مشکل کام نہیں ہو گا۔
بہو کو چاہئے کہ ایسے مواقع تلاش کرے کہ وہ اپنی ساس کا دل خوش کر سکے بعض کام بہت چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں لیکن اگر کسی کو توجہ دی جائے تو دوسرے بندے کے دل میں جگہ بن جاتی ہے مثال کے طور پر اگر ساس کوئی میڈیسن استعمال کرتی ہے تو وقت کے اوپر اس کو میڈیسن دینا’ احتیاطی کھانا کھاتی ہے تو وہ بنا کر دے’ وضو کا پانی گرم کرکے دے’ مصلی بچھا کر دے’ یہ ان کے چھوٹے چھوٹے کام ہوں گے لیکن جب بہو ان کاموں کو کرے گی تو وہ سمجھے گی کہ یہ بہو نہیں میرے گھر کی بیٹی ہے تو یقینا ساس کا رویہ بہو کے ساتھ ماں جیسا ہو گا یہ بہو کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ نئے گھر میں جا کر ساس کے دل میں اپنی جگہ بنائے بعض اوقات چھوٹے چھوٹے کاموں سے انسان دوسرے کا دل موہ لیتا ہے۔ ایسے مواقع کو تلاش کرنا چاہئے کہ جس سے انہیں یہ محسوس ہو کہ یہ بیٹی بن کر ان کی ذاتی خدمت کو بھی اپنی سعادت سمجھتی ہے۔
Past Life
بہو ساس کی گزری ہوئی زندگی سے تجربہ حاصل کرے اس سے مشورہ لے یہ سوچے کہ اگر میں اپنی اس امی سے پوچھ کر ، مشورہ لے کر کام کروں گی تو یقینا میں غلطیاں کم کروں گی اور بہو یاد رکھے ساس جیسی بھی ہو جب آپ کھانا پکانے میں یا کسی بھی کام کرنے میں ساس کو شامل کر لو گی تو اگر کھانا برا بھی بنا تو ساس تمہارا ساتھ دے گی لیکن آج کل کی لڑکیاں ایسا کرتی نہیں ہیں بس شوہر کو قابو کرنے کے لئے تعویزات کے استعمال کرتی ہیں حالانکہ تعویز گھر موجود ہے ساس کی شکل میں ‘ کوئی بھی بہو ساس کو خوش رکھے گی تو اُس کا شوہر اس سے خوش ہی ہو گا کون بیٹا اپنی ماں کی خدمت ہوتے دیکھ کر خوش نہیں ہوتا؟ بیوی خاوند کو ہر گز یہ نہ کہے کہ مجھے الگ مکان چاہئے یا یہ کہ مجھے میکے چھوڑ کر آئو اپنی طرف سے کوشش یہی کرے کہ میں نے اس آباد گھر کو آباد رکھنا ہے ہاں وقت کے ساتھ ساتھ اللہ کا بنایا ہوا یک نظام ہے ایک بچے کی شادی ہوتی ہے پھر دوسرے بچے کی ہوتی ہے ایک بچے کا الگ گھر بنتا ہے پھر دوسرے کا الگ گھر بنتا ہے تو آنے والے وقت میں الگ گھر تو ہر ایک کا بننا ہی ہوتا ہے بیوی صبر سے کام لے شوہر کی مدد نہیں کر سکتی تو کم سے کم شوہر کو مزید ٹینشن نہ دیں۔ شوہر ٹینشن سے مر مرا گیا تو کوئی بیوی کو نہیں پوچھتا پتہ نہیں عورتیں یہ کیوں نہیں سوچتیں کہ شوہر کو خوش رکھیں بس۔
بیوی خاوند سے سامنے ساس، نند کی برائیاں ہر گز نہ کرے خاوند کے سامنے اس کی ماں اور بہن کی چغلیاں نہ کرے اللہ رب العزت کے ہاں انتہائی نا پسندیدہ کام ہے لیکن آج کل کی لڑکیاں اللہ کے احکامات پر عمل پیرا نہیں ہیں بس تعویزات کے ساتھ گھر چلانا جانتی ہیں خاص طور پر کالا علم کرواتی ہیں اپنے اُسی شوہر پر کالا علم کراتی ہیں جو انہیں کما کے لا کے دیتا ہے اُسی کے پیسے یہ کالے علم والوں کو دے آتی ہیں اپنے شوہر پر کالا علم کرانے کیلئے۔ عجیب منتق ہے ایسی بیویوں کی۔ یہ نہیں پتہ کالے علم سے ان عورتوں کو شیطانی موت آئے گی شوہر ذرا سا بھی کالا علم غلط ہو گیا تو ان کا شوہر موت کے منہ میں چلا جائے گا اور ان عورتوں کا اپنا انجام بھی اچھا نہیں ہو گا۔
خدا کی پناہ مانگنی چاہئے ہمیشہ۔ بہو کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ میں اس گھر میں نئی آئی ہوں اور ہر نئی چیز کو آزمایا اور پرکھا جاتا ہے یہی بہو اپنے لئے سونے کا زیور خریدتی ہے تو کتنا پرکھتی ہے تو گھر میں ایک نیا انسان آیا ہے تو ہر بندہ اس کو دیکھے گا، جانچے گا یہ کیسے بیٹھتا اٹھتا ہے؟ کیسے بولتا ہے؟ کیسے اس کی زندگی کے شب و روز ہیں تو وہ اس بات کو سمجھے کہ شادی کے ابتدائی دنوں میں مجھے کس نظر سے دیکھا جائے گا؟ اور اگر کوئی بات گھر کے لوگ میرے بارے میں کر دیتے ہیں تو یہ غلط فہمی ہوتی ہے۔ پھر یہ بھی سمجھے کہ ساس عمر میں زیادہ ہے اور جتنی عمر زیادہ ہوتی ہے اتنا ہی بندے کے اندر تنقید کا مادہ بھی زیادہ ہو جاتا ہے اور چڑچڑا پن بھی زیادہ ہوجاتا ہے بہو نے خود بھی اس عمر میں آنا ہے خود بھی ساس بننا ہے تو خیال رکھنا چاہئے ساس کا۔ ساس کے سمجھانے پر غصہ کرنے کی بجائے خوشی سے پیش آئے۔
Thinking
اکثر لڑکیاں یہ سمجھتی ہیں کہ خاوند جو کما رہا ہے وہ تو بحیثیت بیوی میرا حق ہے۔ اب یہ ماں، باپ اور بہنیں سب کا اس کے کندھوں پر کیوں بوجھ پڑ گیا؟ تو اس میاں کے کندھوں پہ یہ بوجھ پہلے سے تھا، اب تو نہیں پڑا یہ آنے والی لڑکی کی غلط بات ہوتی ہے کہ وہ اپنے خاوند کے ماں باپ کو اس کے سرکا بوجھ سمجھتی ہے یہ وہ رشتے ناطے ہیں جن کو نبھانا ہوتا ہے۔ شادی کے بعد یہ تو نہیں ہو جاتا کہ بندہ ماں کو بھول جائے؟ بہن کو بھول جائے، باپ کو بھول جائے حالانکہ بیوی خود تو اپنے ماں باپ، بہن بھائی سے بہت پیار رکھتی ہے شوہر کے ماں باپ، بہن بھائی اس بیوی کو زہر لگنے لگتے ہیں۔ لڑکی یہ غلطی کبھی نہ کرے کہ اپنے گھر ان افراد کو اپنے خاوند کے سر کا بوجھ سمجھے۔
یہ بھی جھگڑے کی بنیاد ہوتی ہے کہ سسرال کے گھر میں کوئی بات دیکھی فوراً کہہ اٹھے گی میرے امی ابو کے گھر میں تو ایسے نہیں ہوتا تھا، ہمارے گھر میں تو ایسا ہوتا تھا۔ وہ تو ہوتا تھا، اب آپ سسرال میں آچکی ہیں۔ سسرال میں آکر بہو یہ سوچے کہ یہاں کی محفلوں میں میکے کے فضائل بیان کرنا شریعت نے فرض قرار نہیں دیا۔ اب تو آپ کا گھر یہ ہے تو بہو کی غلطیوں میں سے ایک بڑی غلطی یہ بھی ہے کہ وہ سسرال میں بیٹھ کر دن رات اپنے میکے کے فضائل بیان کرتی ہے جو پھر جھگڑے کا سبب بن جاتے ہیں جو اس کانصیب تھا وہ اسے مل گیا۔ امیر گھر کی بیٹی تھی، اب جہاں آگئی ہے وہاں اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرے۔