تحریر: سید صدا حسین کاظمی آج کل لڑکیوں کے لیے اچھے رشتوں کا حصول بہت مسئلہ بن چکا ہے۔اس پر جہیز جیسی لعنت جو آسیب کی طرح ہمارے معاشرے کواپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔والدین کے لیے اور بھی لمحہ ِفکریہ بنتی جا رہی ہے۔ایک دور تھا جب اچھی لڑکی کی تلاش میںلڑکے والوں کی جوتیاں گھس جاتی تھیں۔لیکن آج کل معاملہ بالکل اُلٹ ہو گیا ہے۔آج کل لڑکی والوں کے لیے اچھا لڑکا تلاش کرنا مصیبت سا ہو گیا ہے۔
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر لڑکی اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہو تو والدین کے لیے یہ امر بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ادھرلڑکے والوں کے نخر ے بھی آسمان سے باتیں کر رہے ہیںاور جہیز کے ضمن میں اُن کی فر مائشیں اس حد تک بڑھ چکی ہیں کہ جن گھرانوں میں اللہ پاک نے چار بیٹیاں دے رکھی ہیں۔وہ شادی کا سوچ کر ہی خوف زدہ ہو جاتے ہیں کہ مہنگائی کے اس دور میں شادی کے اخراجات اور لڑ کے والوں کی فر مائشیں کس طر ح پوری کر سکیں گے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ جہیز کو لعنت اور برائی قرار دینے پر ہر طبقہ پیش پیش نظر آ تا ہے۔مگر جب عمل کی باری آتی ہے تو سارے فرمان بُھلا کر بے باک ہو کر فرمائش کی جاتی ہے۔
ایک طرف اکثر لڑکے والے گھرانوں میں بے چینی سے اس بات کا انتظار ہو رہا ہوتا ہے کہ لڑکی جہیز میں کیا کچھ لے کر آئے گی۔بہت سے گھرانے ایسے بھی ہیں جہاں جہیز نہ لانے پر عورتوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
اس سلسلے میں نمود و نمائش کاسلسلہ بھی عروج پر ہے اس لیے جو لوگ اپنی بیٹیوں کو بھاری جہیز دیتے ہیں ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ہر چیز کھول کر دُنیا کو دکھائی جائے۔یہ عمل جہاںمعاشرے میں نمود و نمائش کا باعث بنتی ہے۔ وہیں غریب طبقات کی دل شکنی کا باعث بھی بنتا ہے۔جو اسے دیکھ کر یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ کہ خالقِ کائنات نے انہیں کیوں نہیں ایسی خوشیاں عطا کی ہیں۔
اس تمام معاشرتی بر ائیوں نے مل جُل کر شادی جیسے مقدس رشتے کو مادیت سے آلودہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے غریب گھرانوں کی لڑکیاں والدین کی دہلیز پر بیٹھی بوڑھی ہو جاتی ہیں اور دوسری طرف لوگ اپنی اولاد کی خوشیاں پوری کرنے کے لیے جرائم کا سہارا لینے پر مجبور ہورہے ہیں۔اکثر گھرانوں میں نئی بہو کے مقام کا تعین اس کے لائے ہوئے جہیز کی مقدار اور معیار کو دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ اگر جہیز اچھا اور زیادہ ہو گا تو رشتے دار دُلہن کو سَر آنکھوں پر بیٹھاتے ہیں اور اگر معاملہ اس کے بر عکس ہو تو دُلہن کو طعنے اور جوتیاں اُس کا نصیب بن جاتی ہیں۔
کچھ لوگ جہیز کی ہوش میں اتنا آگے بڑھ جاتے ہیں کہ وہ لڑکی والوں کو استطاعت کے بارے میں بھی نہیں سوچنے دیتے۔ اِدھر لڑکی والے مجبور اََہی بچی کا گھر بسانے کے لیے اُن کے جائز و ناجائز مطالبات پورے کرنے لگتے ہیں۔جس کے نتیجے میں قرض در قرض کے بوجھ تلے دبنے لگ جاتے ہیں۔ضرورت اس اَمر کی ہے کہ جہیز کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں تا کہ لڑکیوں کے والدین کو شادی جیسے اہم فر یضہ ادا کرنے سے قبل ازیت نہ سہنی پڑے اور بیٹیاں والدین کے لیے بوجھ نہ بن جائیں۔