تحریر: منشا ء فریدی کئی دنوں سے بندہ سوشل میڈیا پر قندیل بلوچ کے بارے میں ایک طرح سے فتوے پڑھ اور سن رہا ہے۔”فتوے”کی اصطلا ح اس لیے استعمال کی جارہی ہے کہ یہاں پر ہر شخص اپنی رائے اور فیصلے کو فتویٰ کا درجہ دتیاہے ۔وہ نہیں چاہتا کہ اس کی بات سے کوئی اختلافی نوٹ رکھے ۔یہی معاملہ آج کل ماڈل قندیل بلوچ کے ساتھ بھی ہو رہا ہے ۔ہر طرح سے ان پر طنز کے نشتر چلائے جارہے ہیں۔ ان پر دشنام طرازی کی جارہی ہے۔ اس بارے ایک میگزین میں حسین جمال نے بشکریہ ہم سب ایک مدلل مضمون شائع کرکے فیصلہ کر دیا ہے امید ہے کہ ان باتوں سے سمعی وبصری لذت کشید کرنے والے مولوہانہ طرز کے لوگ خاموش ہو جائیں گے ۔ماڈل قندیل بلوچ کے بارے میں لکھنے سے احترازہی بہتر کہ رقم کے نزدیک جن لوگوں کی طرف سے قندیل بلوچ کو ایک طرح سے رسواء کرنے کے لیے جو پو سٹیس شیئر کی جارہی ہیں ان کو دہرانا میرا نقطہ نظر ہرگز نہیںبلکہ مذکورہ تحریرکے دلائل کو تقویت دینا ہے اور سوشل میڈیا کی دنیا کو اس بار ے ”ذرا ہتھ ہولا” رکھنے کی تلقین کرنا ہے۔
social media
شاید لفظ” تلقین ”پر بھی انٹرنیٹ کی دنیا غصے میں نظر آنا شروع ہو جائے کیونکہ انٹرنیٹ خصوصاً سوشل میڈیا کی دنیا محض ایک کلک کے فاصلے پر ہے۔ بہر کیف یہ بھی وقت کا تقاضہ ہے کہ ان مو ضوعات پر بھی خیالات صرف کیے جائیں کیونکہ قلم کا اصل استعمال معاشرے کی اخلاقی تربیت ہے چونکہ کالم ہذا دو حصوں اور موضوعات پر مشتمل ہے ایک موضوع پر بحث ہو چکی ہے۔ اب آتے ہیں قدرے پھیکے موضوع یعنی حالات حاضرہ کی طرف ۔جس پر گفتگو از حد ضروری ہے ہو سکتا ہے کہ ارباب اقتدارکی اصلاح ہو اور خطہ میں انتشار کے اسباب کا علم ہو سکے ۔ظاہر ہے کہ جب بیماری کی تشخیص نہ ہوگی تو دوا کس طرح تجویز ہوسکے گی ۔تو ظاہر ہے کہ غلط میڈیسن کااستعمال مرض سے نجات نہیں دے سکے گا الٹا جسم مضر اثرات سے شکار ہو گا۔ ان دنوں ایران کے راستے پاکستان میں داخل ہونے والے بھارتی ایجنٹ ”کل بھوشن یادیو” کی گرفتاری بارے بحث گر م ہے۔
بھارتی ایجنٹ کی گرفتاری یعنی اس وقت سامنے آئی جس وقت ایرانی صدرڈاکٹر حسن روحانی پاکستان کے دورے پر تھے اور ان کا یہ دورہ اہم قرار دیا جارہا تھا ۔یہ ایک ناقابل تکذیب سچ ہے ۔ویسے سچ جھٹلایا ہی نہیں جاسکتا کہ پاکستان میں ایران در اندازی میں ملوث ہے اسی طرح ایران کا اثرو رسوخ شام ، عراق اور یمن میں بھی دیدنی ہے حتی کہ عالمی میڈیا کے مطابق ان ممالک میں ایران کی تربیت یافتہ ”فورس پا سداران انقلاب” براہ راست ملوث ہے جس کا ایران نے وقتا ً فو قتا ً اعتراف بھی کیا ہے اور اس ضمن میں ایران کے نشریاتی اداروں میں اس حوالے سے عندیہ پرو پیکنڈہ بھی پیش کیا جاتا ہے ماضی قریب و بعید کی مثالیںہمارے سامنے ہیں کہ ایران کے سرحد ی محافظوں نے پاکستان کی سرحد میں گھس کر سمگلنگ کے جھوٹے الزام کے تحت کئی پاکستانیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔مجال کہ پاکستان اس کا جواب پتھر سے دے سکے ۔۔۔۔! ایران کے اس متعصبا نہ رویہ کے باوجود بھی ہم دعا کرتے ہیں کہ” ایرانی انقلاب” پاکستان میں بر پا ہو۔
Iran
ایرانی انقلاب” انقلاب اسلامی ”کے زمرے میں ہرگز نہیں آتا اسے شیعہ فرقے کا ” اقتدار ایران ”پر تسلط کا نا م دیا جاسکتا ہے جو کہ سو فیصد درست ہے حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایران تمام مسلم ممالک کا ترجما ن ہوتا اور علامہ اقبال کے اس مصرع کی حقیقی ترجمانی کرتا ہے تہران ہو گر عالم ِ مشرق کا جنیوا چونکہ اس وقت پاکستان میں ایران نواز لابی انتہائی طاقتور ہے۔ اسی طرح سعودیہ نوازی بھی حد سے تجاوز کر چکی ہے۔ اس میں ایرانی نظام پر تنقیدبھی خطرات کو مول لینے کے مترادف ہے ۔لیکن خطے کی سلامتی کے لیے بات کرنا بندہ فرائض منصبی سمجھتا ہے جو کہ شاید اپنے تئیں فرائض کی ادائیگی میں کچھ حد تک کامیاب بھی ہو ا ہے۔
تکلف برطرف ۔۔۔۔ اپنی کا وشوں کا اعتراف نعمتوں کا شکر کرنے کے مترادف ہے۔ المختصر معروف کالم نگار محمد اظہار الحق نے اس ضروری موضوع پر بغیر لگی لپٹی کے جو کالم ”تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا”لکھ کر یقینا اہم نقطے پر بحث کی ہے۔ اس بارے ہماری اسٹیبلشمنٹ اہم فیصلوں کے ذریعہ ایران کو اس بات پر مجبور کرے کہ وہ پاکستان میں دراندازی بند کر دے۔ کیونکہ شورش زدہ پاکستان ایران کے لیے بھی شدید خطرات کا باعث ہو گا ۔ قندیل بلوچ کے ذکر اور کرنٹ افیئر سے خشک موضوع پر مشتمل کالم اس دعا کے ساتھ ختم کہ اللہ وطن عزیز پاکستان کو محفوظ اور امن و سلامتی کا گہوارہ بنا ۔