جرمنی(APNAانٹرنیشنل/بیورو چیف)مرکزی بیورو کے مطابق چیف ایگزیکٹئواپنا انٹرنیشنل،نامور صحافی و شاعرشکیل چغتائی نے اپنے کالم شیشہ و چہرہ میںسابقہ صدر پاکستان و سابقہ آرمی چیف جنرل مشرف کی غلطیوں کا جائزہ لیتے ہوئے قوم کو غور و فکر کی دعوت دی ہے:کہتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔کسے یقین تھا کہ سابقہ صدر پاکستان و سابقہ آرمی چیف جنرل مشرف پاکستان واپس آئیں گے اور یہاں انہیںایک شرمناک،قابل افسوس ،دشمنانہ رویہ کا سامنا کرنا پڑے گا؟کس نے سوچا تھا کہ پاکستان آکرانہیں نہ صرف بے شمار کیسوں سے واسطہ پڑے گا،بلکہ انہیںدہشت گردی جیسے الزام کے تحت ضمانت تک نہ ملے گی؟کسے پتہ تھا کہ انہیںنظربندی و گرفتاری کے دکھ جھیلنے ہوں گے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے؟ کیاسابقہ وزیر اعظم نواز شریف کی گرفتاری،جج صاحبان کی نظر بندی اوران سب سے شرمناک سلوک ان کے سامنے آرہا ہے یا ا س میں”حب معاویہ سے زیادہ بغض علی” کا دخل ہے؟کیا وکلاء اور کچھ جج حضرات نواز شریف کو متوقع وزیر اعظم سمجھ کر،جنرل صاحب کو عدلیہ کا مجرم سمجھ کر یا انہیںچیف جسٹس افتخار چوہدری کا دشمن سمجھ کر”شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار”بننے کی کوششوں میں مصروف ہیں؟ کیا جنرل مشرف کی واپسی کچھ نادیدہ قوتوں کا فیصلہ ہے یا یہ کسی منصوبہ کا حصہ ہے؟کیا انہیں انکے مشیروں نے مروادیایا وہ جان بوجھ کر سانپوں کے پٹارے میں کود پڑے؟ کیافوج خاموشی سے یہ سب برداشت کرتی رہے گی۔
یا یہ اسکی آشیر باد سے ہو رہا ہے؟کیا عوام مشرف کے لئے سڑکوں پر نکلیں گے یاشہیدذولفقار علی بھٹو کی طرح پرویز مشرف کے فیصلے تک تماشائی بنے رہیں گے؟کیا ہمارا ملک بھٹو شہید جیسے عالمی رہنما کو کھونے کے بعدپاکستان کے کسی بھی مخلص ومحب وطن رہنما کوکھونے کی سکت رکھتا ہے؟کیا پرویز مشرف کی قوم سے حمایت اور عدلیہ سے انصاف ملنے کی توقعات پوری ہونے کا کوئی امکان باقی ہے؟کیا پاکستان کے موجودہ گھمبیرحالات کے تناظر میںان تمام مقدمات کو موخر نہیں کیا جا سکتا تھا؟کیا کچھ لوگ جنرل مشرف کا قصہ جلدازجلد پاک کرنا چاہتے ہیں؟کیا یہ واقعی اتنا آسان کام ہے؟کیا جنرل صاحب ان تمام مقدمات میںملوث کئے گئے ہیں یاوہ واقعتاً ذاتی طور پرمجرم ہیں۔
Pakistan
یہ اور اس طرح کے بے شمار سوالات ابھی جواب طلب ہیں۔فی الحال وہ ایک جانبدار عدلیہ،میڈیا اور سیاسی جماعتوں کی زد پر ہیں۔یہ سچ ہے کہ پاکستان کا ہر شخص اپنے افعال کے لئے قوم کے سامنے جواب دہ ہے۔لیکن اگر وہ قوم کا مجرم ہے تو اسکے بارے میں فیصلہ کا حق بھی قوم کو ہے۔قانون تو ویسے بھی اندھا مشہور ہے،لہٰذا قانونی جنگ تو عدالتوں میں چلے گی۔لیکن عدلیہ کے ججوں کو آنکھیں کھلی رکھنی ہوں گی۔ انہیںایسا نہیں کرنا چاہئے کہ ”اندھا بانٹے ریوڑیاںاور اپنوں اپنوں کو ہی دے”،ان ریوڑیوں پر سب کا حق ہے ۔جنرل مشرف پر کیسے ہی سنگین الزامات کیوں نہ ہوں،انہیںعدالتوں سے انصاف ملنا چاہئے۔ابھی تک تو یہ انصاف ہوتا نظر نہیں آرہا۔ان پر دہشت گردی کی شق کا عدالتی اضافہ اور انکے کاغذات نامزدگی کی منظوری کے بعد انکی عدالتی نا اہلی اس کی واضح مثالیں ہیں۔
اگر جنرل مشرف عدلیہ سے جھوٹی توقعات وابستہ نہ کرتے تو شاید وہ اپنے پاکستان آنے کے فیصلے پر نظر ثانی بھی کر لیتے،مگر لگتا ہے انکے سابقہ یا موجودہ قانونی مشیروں کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ عدلیہ کے چند ججز ، مخالف سیاسی جماعتیں اور انکی جان کی دشمن قوتیں ان سے بدلہ لینے کے لئے کتنی دور تک جا سکتی ہیں؟بظاہر یہی لگتا ہے کہ وہ عرب دوست ممالک،بڑی قوتوں اور فوج کے مشوروں کو نہ مانتے ہوئے پاکستان آ گئے ہیں،جسکا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑ رہا ہے۔اس میں کچھ حصہ انکے مشیروں کا بھی ہو سکتا ہے۔اس سلسلے میںبیرسٹر حفیظ پیر زادہ کے بجائے بیرسٹراحمد رضا قصوری کا ا نکی قانونی ٹیم کا سر براہ بننا بھی قابل غور ہے،جو بھٹو شہید کے مقدمہ میں درخواست گزار ہونے کے سبب پیپلز پارٹی میں ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھے جاتے ہیںاورشایدحفیظ پیر زادہ نے اسی لئے معذرت کر لی ہو۔
Media
حال ہی میں انکے چند بیانات نے بھی شہرت پائی ہے، جس کو مشرف کے خلاف میڈیا خوب اچھال رہا ہے۔اس سے قبل جنرل مشرف کے چند مخلص ساتھی اورقابل وکلاء ان سے علیحدہ ہو گئے، جس سےAPMLکو دھچکا لگا۔ بیرسٹرسیف آج بھی مشرف صاحب کے دل سے حامی ہیں مگر انہی مشیروں کی وجہ سے دور ہو گئے ہیںجبکہ فوادچوہدری بد دل ہو کرپارٹی چھوڑ گئے اور آجکل پیپلز پارٹی کی نمائندگی کررہے ہیں۔پرویز مشرف نے اب تک اپنے روٹھے ساتھیوں کو منانے کی کوشش نہیں کی، جو انکی غلطی ہے۔آج کل کوئی مخلص کارکن یا پراناسا تھی،یہاں تک کہ مجھ جیسا ادنیٰ کارکن بھی ،اپنی پارٹی سے ناراض ہو جائے تو بغیر منائے واپس نہیں آتا۔اسلئے مشرف صاحب کواپنے ان پرانے ساتھیوں کے بارے میں بھی سوچنا چاہئے۔
اب آتے ہیں انکی بڑی غلطیوں کی طرف،جس کا آغازاس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف فوجی کاروائی سے ہوا۔جس کاالزام بہرحال جنرل مشرف کو نہیں دیا جاسکتا کیونکہ وہ تو اس طیارہ میں سوار تھے،جسے نواز شریف کے احکامات کے مطابق پاکستان کی سرزمین پر اترنے کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی۔ البتہ بعد میں انکی گرفتاری،انہیں ہتھکڑیاں لگانااور ملک بدر کرناایک افسوسناک اورغلط مثال تھی۔اس کاروائی میںآگے چل کرنواز شریف پر بغاوت کا مقدمہ بنا اور وہ مجرم بھی قرار پائے۔تاہم اس فیصلہ کو موجودہ چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اپنی بحالی کے بعد موقوف کر دیا اور بقول مشرف” میاں صاحب اپنی مرضی سے دس سال واپس نہ آنے کامعاہدہ کر کے جدہ چلے گئے۔انکی دوسری بڑی غلطی لال مسجد کا شاخسانہ تھا۔جس میں مشرف صاحب نے چند دوست نما دشمن میڈیا اینکروں ،مشیروں اور فوجی جنتا کے کہنے پر اتنی بڑی کاروائی کر ڈالی،جو ان کے گلے میں ڈھول کی طرح لٹک گئی۔
اس کاروائی کے بارے میں تسلسل سے اتنا جھوٹ بولا گیااور انکے سیاسی مخالفین اور اینکرز نے خود ساختہ ”عورتوں اور بچوں کی آہوں، سسکیوں اور چیخ و پکار”کے وہ وہ مناظر کھینچے کہ جرمنی میںہٹلر کے زمانہ کا پروپیگنڈہ منسٹربھی شرما جائے۔باقی رہے انکے مشیر اور اس کاروائی میں شریک دیگرافراد اور ادارے،تو ان سب نے ملبہ مشرف پرگرا دیا۔ یہ اور بات ہے کہ اس بارے میں بنائے گئے عدالتی کمیشن نے اس جھوٹ کا پول کھول دیااور پتہ چلا کہ وہاں سے خواتین اور بچے اس کاروائی سے قبل باہرنکل چکے تھے۔
PML-N
اس کے باوجود ن لیگ کے ایک رہنما پچھلے دنوںایک ٹاک شومیںبڑی ڈھٹائی سے اپنے پرانے موقف پر ڈٹے ہوئے تھے اوراینکر بڑی تابعداری سے ان کی ہاں میں ہاں ملا رہا تھا۔ان کی تیسری بڑی غلطی بلوچستان کے رہنما سرداراکبربگٹی کی ہلاکت تھی۔جس میں وہ اپنے کہے ہوئے ایک جملے کے جال میں پھنس گئے یا چالاک اینکرز کی جانب سے پھنسا دئے گئے۔
وہ جملہ تھا کہ” میں تمہیں ایسی جگہ سے ہٹ کروں گا کہ تمہیں پتہ بھی نہیں چلے گا۔”اس جملے کو سیاق و سباق سے جدا کر کے تقریباًہر ٹی وی ٹاک شو میں چلایا گیا،اس پر کالم لکھے گئے اور اس سیلاب میںلفافہ اینکرز اور صحافیوں کے ساتھ ساتھ سنجیدہ صحافی بھی بہہ گئے۔اکبر بگٹی کی شہادت ایک بڑا سانحہ ہے،لیکن بقول مشرف اس میں کئی فوجی افسر بھی شہید ہوئے۔اس لئے اب وقت آگیا ہے کہ اس معاملے کی بھی عدالتی کمیشن کے ذریعہ تحقیقات کرائی جائے،تاکہ دودھ کادودھ اور پانی کا پانی ہو سکے۔ان کی چوتھی بڑی غلطی چیف جسٹس افتخار چوہدری کے بیٹے ارسلان چوہدری کی حرکتوں پر کسی کاروائی کی عدم موجودگی کی بناء پر اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز کے چیف جسٹس کے خلاف عدالتی ریفرنس کوجوڈیشنل کمیشن بجھوانا اور وہاں سے کوئی مثبت فیصلہ نہ ملنے پرایمر جنسی نافذ کر کے فاضل چیف جسٹس اور ایسے تمام جج صاحبان کی معزولی تھی۔
جنہوں نے دوسری مرتبہ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان میں سے بیشتر جج صاحبان بشمول چیف جسٹس افتخار چوہدری نے جنرل مشرف کے ٹیک اوور کو نظریہ ضرورت کے تحت نہ صرف جائز قرار دیا تھا،بلکہ انہیں تین سا ل حکومت، کرنے اور آئین میں ترمیم کے اختیارات دے کر انکی سربراہی میں پی سی او کے تحت حلف اٹھایا تھا۔یہی وہ نکتہ ہے جس سے بچنے کے لئے عدالتی کاروائی کوملٹری ٹیک اوور کے بجائے کئی سال بعد ایمر جنسی کے نفاذ سے شروع کیا جا رہا ہے،جسے عدالت عظمیٰ پہلے ہی ناجائز قرار دے چکی ہے۔اس بارے میں مشرف کے قانونی مشیر کون سے دفاعی پہلو سامنے لاتے ہیں اس کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔
Nawaz Sharif
یہ بات طے ہے کے نواز شریف کے خلاف فوجی کاروائی میں شریک جرنیل، کور کمانڈرز،حکومتی ایجنسیوں کے اعلیٰ عہدیدار اور بعد میں انکی کابینہ کے وزیر و مشیراس ”پینڈورا بکس”کو کھولنے سے روکنے کی کوشش کریں گے،نیز پاکستان کی سیاست پر اثر انداز ہونے والے دوست ممالک اور بڑی طاقتوں کا مفاد بھی غالباًاس بات میں پوشیدہ ہو کہ یہ بات دور تک نہ جائے۔اس بارے میں عدلیہ اور فوج کیا سوچ رہی ہے اس کا اندازہ آنے والے وقت میں ہونے والا ہے ۔تاہم اس وجہ سے پرویز مشرف کی جان کو درپیش خطرات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے،تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ انکی حکمرانی کے دور میںان پرقاتلانہ حملہ ہو چکا ہے،جس میں کچھ فوجی افسرا ن بھی ملوث تھے۔لہٰذا ”پینڈورا بکس” کا ڈھکنا بند رکھنے کے لئے کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
یہ جنرل پرویز مشرف کی وہ بڑی غلطیاں ہیں ،جن کی تلافی شاید ممکن ہو۔وہ ان میں سے کچھ غلطیوں پر قوم سے معافی مانگ چکے ہیں اور یوں بھی ان میں بہت سے پردہ نشینوں کے نام آتے ہیں۔ تاہم ا نکی ایک غلطی کی تلافی ممکن نہیں۔جی ہاں انکی ”سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ گورداسپور یا امرت سر کے بجائے غلطی سے دہلی میں پیدا ہو گئے۔”پھر انہوں نے اس غلطی کو چھپانے کے لئے کچھ نہیں کیا۔بلکہ اسی بناء پر نواز شریف نے انہیں فوج کی کمان دے ڈالی کہ ”یہ تو تابعدار رہے گا۔”گو اس بات پر فوج کے کئی سینئر،قابل وبہترین جرنیل استعفیٰ دے کر گھر چلے گئے۔سونے پر سہاگہ یہ کہ انہوں نے اقتدار میں آتے ہی پاکستان کے سوتیلے شہر کراچی میں ایک ایسی جماعت کے سر پر ہاتھ رکھا،جس کے خلاف پاکستان کی تمام قابل ذکر سیاسی جماعتیں لندن میں بیٹھ کر معاہدہ کر چکی تھیں کہ اسے سیاسی میدان سے باہر کیا جائے،اسے دہشت گرد، فسطائی جماعت قرار دیا جائے اور اسکے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کیا جائے۔
انکے دور حکومت میںپہلی مرتبہ کراچی کے عوام کا حق تسلیم کرتے ہوئے،پاکستان کے ٹیکس کی مد میںکل آمدنی کا تقریباً٧٥ فیصد ادا کرنے والے شہر کی ترقی کے لئے بلوچستان پیکج کی طرح کراچی پیکج دیا گیا۔جس سے اس زمانے کے مئیر مصفےٰ کمال نے اس شہر کی کایا پلٹ کر رکھ دی۔گو اس سے قبل جماعت اسلامی کے مئیر نعمت اللہ خان نے بھی قابل قدر خدمات انجام دی تھیں،مگر متحدہ قومی موومنٹ کے مئیر نے”بہ جا بہ جا” کر دی اور برلن کے حکومتی مئیر کے ساتھ دنیا کے تین بہترین مئیرز میں شمار کئے گئے۔
یہ اور بات ہے ہے کہ دوسری ملکی جماعتوں کی طرح ابھی تک MQM نے بھی سوائے ایک آدھ بیان کے پرویز مشرف کے حق میں کچھ نہیں کیا،توکیا MQM کے ذریعہ کراچی اور سندھ کی خدمت بھی مشرف کی غلطی تھی؟ آخر میں درخواست ہے کہ اس سب سے بڑی غلطی کے تناظر میں یہ کالم دوبارہ پڑھئے اور اس مرتبہ یہ غلطی بھلا کر، تعصبات ذہن سے نکال کرایک سچے اور کھرے پاکستانی بن کر فیصلہ کیجئے کہ جنرل مشرف کی دیگربڑی غلطیوں پر ان کے ساتھ کس طرح کا انصاف ہونا چاہئے۔