تحریر: شاہ بانو میر قندیل کو اس کے بھائی نے غیرت کے نام ہر قتل کر دیا٬ قتل کیسے نہ ہوتا اس ملک کے سفاک معاشرے میں تو گھات لگائے لوگ ہر گھاٹ پر بیٹھیں ہیں جنہیں تلاش ہے ایسی لڑکیوں کی جو غربت کا شکار ہیں جو کچھ کرنا چاہتی ہیں ٬ انہیں راتوں رات شہرت کے خواب دکھا کر روشنیوں کی دنیا میں لے جایا جاتا ہے ٬ جہاں پس پردہ تاریک سوچوں کا تاریک راج ہے٬
غربت افلاس کیا ہے؟ بھوک کیا ہے؟ مسلسل تفریق انسانیت ہے٬ یہی تفریق غربت اور امارت کا غیر اسلامی نظام قائم کر کے غیر اسلامی طرز زندگی کو فروغ دیے جانے والے اس معاشرے میں جب حالات سے تنگ آکر گھر کی دہلیز عبور کرتی ہے اور غربت کا خاتمہ کرنے نکلتی ہے ٬٬ تو اسےجائز ذرائع کوئی نہیں فراہم کرتا البتہ مدد ایسے کی جاتی ہے کہ عورت کو چراغ خانہ سے شمّع محفل بنا دیتے ہیں ٬ پھر اسی عورت کویوں شہرت دی جاتی ہے آگے بڑہایا جاتا ہے کہ دوسروں کیلئے قابل نفرت اور ناقابل برداشت بنا دیا جاتا ہے٬ اسکو شمع محفل بنانے والے تو اس کو کیش کر کے رقم اور خِراج وصول کرلیتے ہیں۔
مگر گھر والے اسی فرسودہ معاشرے کے باسی ہیں جو دوہرے معیار پر کاربند ہیں٬ ایک طرف تو گھر کی بیٹی سے غربت کا خاتمہ چاہتے ہیں دوسری جانب متنازعہ بننے والی بیٹی پر پھبتیاں کسنے والے اور انہیں مسلسل طعن و تشنیع کرنے والے ہمہ وقت انہیں ذہنی اذیت تو دیتے ہیں مگر اس گھر کو دال روٹی نہیں دے سکتے ہر ایک سے جاہلانہ مشورے مفت ملتے ہیں اس گھناؤنے معاشرے کے اکسانے پر”” غربت”” غیور بن جاتی ہے اور پھر اس عورت کو غیرت کے نام پر آسانی سے قتل کر کے معاشرے میں ہمدردی حاصل کی جاتی ہے۔
Qandeel Baloch Jym
زندہ ہوتے ہوئے قندیل کیلیۓ”” بلوچ”” لگانا باعث شرمندگی تھا مگر کوئی طاقتور بلوچ اسکا وظیفہ لگا کر اس نام کی لاج رکھ لیتا؟ قندیل کا ایک پروگرام گزشتہ دنوں دیکھا اور سوچا کہ اتنا بڑا چینل اور اسکا معیار ایسی لڑکی جس کے پاس گھر نہیں وہ کس کے فارم ہاؤس میں تتلی بنی تیراکی کر رہی تھی؟ وہ کس کی گاڑی میں سارا دن میزبان کے ساتھ گھومتی رہی؟ فائیو سٹار ہوٹل کے جِم میں ایکسرسائز کرنے کے بعد جوس ہاتھ میں لیتے ہوئۓ وہ مجھے مکمل طور سے اس ماحول کی نہیں لگی باوجود اسکی بے باک گفتگو کے لباس کے انداز کے کہ وہ دکھاوا کر رہی ہے٬ جِم کے بعد وہ واپس اسی فارم ہاؤس پہنچتی ہے جہاں چند اوباش لوگ موجود ہیں اور وہ ڈانس ماسٹر سے ڈانس کی پریکٹس کرتی ہے یہ کیا ہے؟ تو سوچنا تو ہوگا کہ آخر وہ کون تھے جو اسے بغیر سیمنٹ ہوئے گھر سے اٹھا کر اسے فارم ہاؤس لے گئے؟
ہم یہ سوال نہیں کر سکتے کیونکہ اس ملک کا روایتی معاشرہ ہمیں اجازت نہیں دیتا٬ فوزی سے قندیل بلوچ کا سفر ہر اس لڑکی داستان ہے جو گھر میں شرافت سے رہے تو بھوک اسکا مقدر ہے ٬ اور جب وہ معاشرے سے حصول رزق کیلیۓ سوال کرے تو جواب صرف ایک ہے قحبہ گری وہی مرد جو اسے آلہ کار بناتے ہیں ہر طرح کا سامان تعیش فراہم کر کے اپنی دولت میں راتوں رات اضافہ کر لیتے ہیں ٬ معاشرہ جب اتنی تنزلی کی طرف چلا جائے تو عوام الناس کے رونے کا مقام ہے ٬ آج آپ کا ہر دانشور میڈیا پر مجبور ہے کسی نہ کسی بھانڈ میراثی کے ساتھ بیٹھنے پر ٬ اس کی دانشوری آج پیسے کے تابع ہو کر ریٹنگ کی محتاج ہے۔
اسی رنگا رنگ آنکھیں چندھیا دینے والی دنیا کے ماہر ایسی لڑکیوں کی تاک میں رہتے ہیں جو کچھ کرنا چاہتی ہیں کم تعلیم یافتہ ہیں اور معاشرتی افلاس کا شکار ہیں٬ شو بِز کے ہجوم میں ایک بار گھِر جانے والی ایسی لڑکیاں ایسے جال میں الجھ جاتی ہیں کہ وہ تمام تر تعیشات انہیں فراخدلی سے عطا کی جاتی ہیں جو ان کا خواب تھیں٬ قندیل بلوچ بھی ایسی ہی غربت کا شکار لڑکی تھی جس کی خواہشات تھیں جسے پورا کرنے کیلئے اسے کیا سے کیا بننا پڑا؟ بڑہاپے معذوری کا شکار باپ نشے کا عادی بھائی گھریلو اخراجات اُس گھر کی لڑکی کیسے اٹھا رہی ہے ؟ یہ سوال کوئی باپ کوئی بھائی بیٹا اس وقت تک نہیں کرتا جب تک کہ اسکی ہر ضرورت پوری ہوتی رہے مگر غیرت جاگتی کس وقت ہے نام نہاد غیرت چارہ بنی بہن بیٹی کیلئے نہیں بلکہ ضرورت پوری نہ کرنے پر جاگتی ہے۔
Qandeel Baloch Brother
بہن کے ٹھاٹ باٹھ عالیشان طرز زندگی نشئی بھائی کو اکساتا ہے کہ اپنے بھائی ہونے کا حق استعمال کرو اور مانگو٬ پیسے نہیں ملتے تو بھائی کو یاد آتا ہے کہ ایک حربہ ہے اس کو ٹھکانے لگانے کا غیرت لہٰذا وہ غیرت میں آکر اسے قتل کر دیتا ہے٬ پروگرام میں قندیل نے بتایا کہ وہ جوڈو کراٹے جانتی ہے اسکی یہ بات یاد آئی تو سوچا یہ کمزور نشئی بھائی اس کا قاتل ہے کیسے؟ اس مضبوط لڑکی کو کیسے قابو کیاہوگا؟ جواب مل گیا کہ ہوش و حواس میں تو شائد ایسا ممکن نہ تھا٬ مگردھوکہ سے نشہ آور دوا کھلا کر بیہوشی کی حالت میں قتل کیا٬ قندیل معاشرے میں گندگی پھیلا رہی تھی اس کا قتل کسی کو بھی آزار میں مبتلا نہیں کرے گا۔
مگر قندیل جاتے جاتے آپ سب کیلیۓ ہم قلمکاروں کیلیۓ سوال چھوڑ گئی ہے٬ کہ گھر کی غربت افلاس عورت کو باہر نکلنے پر مجبور کرتی ہے جہاں وطن عزیز کے شرفاء ہر ادارے میں آج صرف پیسے کے حصول کیلیۓ کوشاں ہیں جس میں ایک بڑے طبقے کو ان کی شرافت دیانت کی وجہ سے جائز حق سے محروم دانسة رکھا جاتا ہے تا کہ یہ حریص بھیڑیے ضرورتمند شکار حاصل کر سکیں؟ اپنی خواہشات کی تکمیل کے ساتھ ساتھ اپنی دولت میں اضافہ کرتے رہیں؟ قندیل اور اس کے اعمال وہ جانے اور اس کا رب جانے ہم سب کو ایک حرف بھی کہنے کی اجازت نہیں دیتا اللہ۔
لیکن ہمارے لئے سوچنے کا گھمبیر مقام ہے کہ کیا یہ”” آخری قندیل”” تھی جو بجھا دی گئی؟ یا اس سفاک ظالم نا انصاف معاشرے میں ایسی قندیلیں جلتی رہیں گی جنہیں باپ اخراجات پورے کرنے کی وجہ سے اپنا بیٹا کہیں گے اور شرابی بھائی رقم نہ ملنے پر آسان سا لفظ غیرت استعمال کر کے اس کو ابدی نیند سُلا دیں گے؟ غلطی کہاں ہے؟ تدارک کس کا کرنا ہے؟ مجبوری حالات کا شکار آلہ کار بننے والی ان مفلس قلاش لڑکیوں کا؟ یا معاشرے میں مسلسل منفی طرزِمعاشرت کو فروغ دینے والے شرفأء کا؟ قندیل ہمارے لئے آئینہ ہے جس میں ہم اپنے آپ کو اپنے طرز معاشرت کو دیکھ کر سوچنے پر مجبور ہوں گے قندیل ہمارا آئینہ بنی ہم سے سوال کر رہی ہے کہ غلط قندیل تھی یا ہم؟۔