برسلز (پ۔ر) مقبوضہ کشمیر کی گھمبیر صورتحال سے خواتین اور بچے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ عالمی برادری خصوصاً یورپی یونین کو اس صورتحال کا فوری نوٹس لینا چاہیے۔ کشمیری عوام پر مظالم روکوا کر اور ان کو انکا حق خودارادیت دلا کر کم از کم کشمیریوں کے زخموں پر مرہم رکھی جائے۔
یہ بات جنوبی ایشیاء کے تناظر میں کشمیری خواتین کے کردار کے حوالے سے یورپی پارلیمنٹ میں دوروزہ بین الاقوامی کانفرنس کے اختتام پر جاری ہونے والے اعلامیے میں کہی گئی۔ کانفرنس کا انعقاد کشمیرکونسل ای یو نے یورپی پارلیمنٹ کے فرینڈزآف کشمیرگروپ کے تعاون سے کیاتھا۔ اعلامیے میں مقبوضہ کشمیرمیں خواتین کے ناگفتہ بہ حالات پر سخت تشویش ظاہرکی گئی اور خواتین کے حقو ق کے تحفظ کےلئے کوشاں عالمی تنظیموں سے اپیل کی گئی کہ وہ اس صورتحال پربلاتاخیرتوجہ دیں۔مقبوضہ وادی میں خاتوں ماں ہویابہن، بیوی یابیٹی ہو ، ہرپہلوسے اس کو مصائب کا سامنا کرناپڑاہے۔ بہت سی خواتین بیوہ ہوچکی ہیں، کئی اپنے والدین سے محروم اور کئی اپنے بھائیوں سے ہاتھ دھو بیٹھی ہیں۔ اعلامیہ میں گذشتہ دنوں سوشل میڈیاپر پابندی کی بھی مذمت کی گئی ہے اور مطالبہ کیاگیاہے کہ عالمی برادری خصوصاً یورپی یونین بھارت پر دباؤ ڈال کر اس طرح کی پابندیاں ختم کروائے۔اعلامیے میں کہاگیاہے کہ آج کی دنیامیں اظہاررائے بنیادی انسانی اور جمہوری حقوق میں سرفہرست ہے اور سوشل میڈیااس اظہارکا ایک موثر ذریعہ ہے لیکن بھارت سوشل میڈیاپر پابندی لگاکرکشمیریوں کی آوازکو دبانا چاہتا ہے۔
جنوبی ایشاء کے تناظر میں امن اور جمہوریت کے لئے خواتین کی تعلیم‘‘ کے عنوان سے اس دو روزہ پروگرام میں اراکین یورپی پارلیمنٹ ، مختف ملکوں سے انسانی حقوق کے علمبردار، ماہرین اور ، پروفیسرز اوردانشور شریک ہوئے ۔کانفرنس کے پہلے روز مقررین نے جنوبی ایشیاء کی تناظر میں کشمیری خواتین کے کردارپر روشنی ڈالی اور دوسرے روز ورکشاپ کے اختتام پر سفارشات مرتب کی گئیں۔ورکشاپ کے دوران خاتون رکن یورپی پارلیمنٹ مس جولی واٹ نے اپنی تجاویزپیش کیں اور مصائب کا شکارکشمیری خواتین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔
کانفرنس سے پولینڈ کی یونیورسٹی آف سوشل سائیکالوجی کی پروفیسر ڈاکٹر اگنیشکا کوشوسکا، وارسا کی کالجیم سویتاس یونیورسٹی کی ڈاکٹر اگنیشکا نیتزا، چیئرمین کشمیرکونسل ای یو علی رضاسید ، کولمبیابزنس سکول کنیڈاکی خولہ صدیقی، ویسٹ منسٹر یونیورسٹی برطانیہ کی سعدیہ میراور شیفلڈ یونیورسٹی برطانیہ کی افراء بخاری اور یورپی یونین کے سابق سفیر انتھونی کرزنرنے خطاب کیا۔اراکین یورپی پارلیمنٹ ڈاکٹر سجاد حیدرکریم، امجد بشیر اور راجہ افضل خان نے کانفرنس کے شرکا ء کاخیرمقدم کیا جبکہ نظامت کے فرائض سعدیہ میر نے انجام دیئے۔
سجاد کریم نے کہاکہ وہ مہمانوں خاص طورپر یورپ کے مختلف ملکوں سے آئے ہوئے دانشوروں اور ماہرین کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ انھوں نے کہاکہ یہ کانفرنس ایسے وقت ہورہی ہے جب کشمیری خواتین پر دباؤ بڑھ رہاہے اور وہ احساساتی دکھوں اور حقیقی زخموں کاشکارہیں۔
رکن ای یوپارلیمنٹ امجدبشیر نے اس کانفرنس کے انعقاد پر کشمیر کونسل ای یو کو سراہتے ہوئے کہاکہ اس سے کشمیریوں کے حقو ق خاص طورپر خواتین کے کردار کو اجاگرکرنے میں مددملے گی۔اپنے خطاب میں راجہ افضل خان نے جنوبی ایشیاء کے تناظر میں کہاکہ غربت خواتین کی ناخواندگی کی ایک اہم وجہ ہے ۔ انھوں نے کہاکہ جنوبی ایشیاء میں لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد سکول نہیں جارہی جس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔یعنی تعلیم نہ دینے سے معاشرے کی استعداد کمزورہوجائے گی۔
جنوبی ایشیاء بالخصوص پاکستان کے امور کی پولش ماہر پروفیسر ڈاکٹر اگنیشکا کوشسکانے جنوبی ایشیاء میں خواتین کی تعلیم کے متعلق چیلنجوں اور سیاست ، معیشت اور سماجی ترقی میں خواتین کے کردار پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے کہاکہ تعلیم اوربہترخواندگی کے ذریعے معاشرے میں خواتین کے کردار کو موثر بنایاجاسکتاہے۔ بحث و مباحثے اور جمہوری عمل میں خواتین کا کردار انسانی ترقی اور ریاست کے جمہوری عمل کے ارتقاء کے لئے مفیدثابت ہوسکتاہے۔ڈاکٹراگنشکا نے پاکستان میں خواتین کی تعلیم کے بارے میں کہاکہ پاکستان کے آئین میں تعلیم خواتین کا بنیادی حق ہے۔تنازعہ کشمیرکے بارے میں انھو ں نے کہاکہ مسئلہ کشمیرخطے میں اسلحہ کی دوڑ کا سبب ہے جیساکہ ذرائع کا ایک بڑا حصہ اس اسلحے کو بنانے پر مصرف ہورہاہے۔
جنوبی ایشیاء کی ایک اورماہرڈاکٹر اگنیشکانیتزانے جمہوریت میں پاکستانی اور ہندوستانی خواتین کے کردار پر تقابلی جائزہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ برصغیر پاکستان اور ہندوستان کی تاریخ میں بعض بااثر خواتین سیاست میں آئیں جن میں سے کچھ نے تو متنازعہ پالیسیاں مرتب کیں۔ مثال کے طورپر اندرگاندھی نے ملک میں ریاستی ایمرجنسی کا نفاذ کیااور ہٹ دھرمی پر مشتمل بعض پروگرام شروع کئے۔
ڈاکٹر اگنیشکا نیتزا نے پاکستانی پارلیمنٹ میں خواتین کے لئے کوٹہ سسٹم کاذکرکرتے ہوئے کہاکہ اس کا مقصد سیاست میں خواتین کی نمائندگی کو یقینی بناناتھاجبکہ بھارت میں ریاست کی پالیسی سازی کی سطح پر ایسے اقدامات کی کمی نظرآئی ہے۔
چیئرمین کشمیرکونسل ای یو علی رضاسید نے جنوبی ایشیا ء خصوصاً پاکستان اور بھارت میں امن اورتعلیم میں خواتین کے کرداربشمول بھارت، پاکستان اور کشمیرمیں خواتین کی تعلیم کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ خواتین کو آج دنیامیں ہرجگہ عدم اختیارات کا سامنا ہے۔
انھوں نے شرکاء کی توجہ متنازعہ علاقوں بالخصوص کشمیر کی طرف دلائی اور کہاکہ خواتین کو ان علاقوں میں نہ صرف ریاستی تشدد کا سامنا ہے بلکہ اپنوں پیاروں کی جدائی کے غم میں وہ سماجی سطح پر بھی ایک نفسیاتی دکھ وتکلیف سے گزررہی ہیں۔انہیں تشدد، ریپ اور محرومیت کا سامناہے اور ساتھ ہی ساتھ انہیں اپنے بیٹوں، بھائیوں، شوہروں اور والدین کے بچھڑنے کا غم کھائے جارہاہے۔کشمیرمیں تو آج خواتین پیلٹ گن سے نابیناہونے والے نوجوانوں کی دیکھ بھال میں مصروف ہیں۔ علی رضاسید نے زوردے کرکہاکہ صحت مند، تعلیم یافتہ اور باوقار خواتین ایک جمہوری، امن پسنداور تعلیم یافتہ جنوبی ایشیاء کے خطے کے لئے اہم کرداراداکرسکتی ہیں جہاں ان کی اس عظیم استعداد کو بھارت نے کشمیریوں کوان کے جمہوری حق خودارادیت سے محروم رکھ کریرغمال بنایا ہوا ہے۔
کشمیرکونسل یور پ (ای یو)کے چیئرمین علی رضاسیدنے مزید کہاکہ س پروگرام کا مقصدجنوبی ایشیاء کے تناظر میں خواتین کے کردارکو اجاگرکرناہے۔خاص طورپر متنازعہ علاقے کشمیرمیں خواتین کے کردار کوسامنے لاناہے کہ وہ کس طرح اپنے علاقے میں امن و جمہوریت کے لئے مغربی خواتین کے تجربات سے استفادہ کرسکتی ہیں۔امن اور جمہوریت کے لئے خواتین کاکردار بہت اہم ہے کیونکہ وہ اپنی جدوجہد کے ذریعے معاشرے کو بہتربناسکتی ہیں۔
انہوں نے کہاکہ مقبوضہ کشمیرمیں خواتین کی بڑی تعدادان لوگوں میں شامل ہے جو اس خطے کی سنگین صورتحال سے متاثرہوئے ہیں۔ ہم کشمیرسمیت دنیاکے ہرخطے میں لوگوں کے حقوق اورخاص طورپران کے حق آزادی پر یقین رکھتے ہیں۔ انھوں نے کہاکہ امید ہے کہ یہ کانفرنس کشمیرمیں خواتین کے حقوق اورامن و جمہوریت کے لئے ان کے بہتر کردارکو اجاگرکرنے کی جانب اہم قدم ثابت ہوگی۔
کانفرنس کے دوران سابق سفیر برائے یورپی یونین انتھونی کرزنر نے بتایاکہ یورپ ۔بھارت تعلقات کے بارے میںیو رپی پارلیمنٹ کی رپورٹ میں کشمیرکا کہیں ذکر نہیں۔ برطانیہ سے آئی ہوئی مندوب افرا ء بخاری نے معاشرے میں پہلے سے موجودصنفی امتیازات خاص طورپرخواتین ورکروں کو معاوضے کی عدم ادائیگی، عدم مساوات اور ریاست کی طرف سے خواتین کے حالات بہتر بنانے میں عدم ترجیح کا ذکر کیا۔
سعدیہ میرنے صنفی مساوات کے بارے میں یواین کمیشن کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے تجربات کو شرکاء کے سامنے پیش کیا۔ انھوں نے کہاکہ خواتین کے پالیسیوں میں شریک ہونے سے دور رس نتائج برآمد ہوں گے۔ برسلزمیں مقیم پاکستانی دانشور کنتھ رائے نے میڈلین البرائیٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ خواتین کی مشارکت کے بغیر جمہوریت ناممکن ہے۔
کنیڈا سے آئی ہوئی خاتون کشمیری مندوب خولہ صدیقی نے کہاکہ کشمیرمیں سکول لمبی مدت کے لیے بند رہتے ہیں۔ تنازعہ کی وجہ سے معشیت پر بھی اثر پڑرہاہے اور غربت بڑھ رہی ہے۔ تشدد کے حوالے سے ایک مثال دیتے ہوئے انھوں نے کہاکہ ایک کشمیری لڑکی کو بھارتی فوجیوں نے نشانہ بنایاجس کے بعد جھڑپ ہوئی جس میں دولڑکے شہید ہوئے۔ انھوں نے کہاکہ اب طالبا ت نے گلیوں میں فوجیوں پر پتھراؤ شروع کیاہے جس سے کشمیری خواتین کی طاقت اندازہ لگایاجاسکتاہے۔انھوں نے مزید کہاکہ خواتین کی تعلیم کے فروغ کے لئے معاشرے کا پرامن ہونا ضروری ہے۔